ملک و ملت کا اقبال ؒ
آج سے 137برس قبل 9نومبر 1876ءکو سیال کوٹ کے ایک معزز گھرانے میں ایک نومولود نے آنکھ کھولی ۔ یہ وہی آنکھ تھی ،جس نے بعد ازاں پاکستان کا خواب دیکھا تھا ۔ 9نومبر1876ءکو برصغیر میں ہزاروں بچے پیداہوئے ہوں گے ،مگر اُن سب میں سے جداگانہ صلاحیتوں کا حامل صرف ایک ہی بچہ تھا ۔والدین نے اس بچے کا نام محمد اقبال رکھا ۔ اس بچے کی پرورش خالص مذہبی ماحول میں کی گئی ۔ ایک دن وہ ننھا بچہ سکول میں تھوڑی تاخیر سے پہنچا تو استاد نے پوچھا کہ اقبال آج آپ دیر سے کیوں آئے ہو ؟ ننھے اقبال نے بے ساختہ جواب دیا کہ اقبال ہمیشہ دیر سے ہی آیا کرتے ہیں ۔ یہ ایک بڑا ہی معنی خیز اور دانشمندانہ جواب تھا ۔ ننھے اقبال کا یہ جواب سن کر استاد ورطہءحیرت میں ڈوب گیا ۔ استاد کی بصیرت افروز آنکھوں سے آنسو چھلک گئے اور اس نے کہا کہ بے شک ایک دن آئے گا کہ ننھا اقبال ملک و ملت کا اقبال بن جائے گا ۔ استاد کے لبوں سے نکلے ہوئے وہ الفاظ اس دن حقیقت کا روپ دھار گئے، جب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کو تاجدارِ برطانیہ کی طرف سے ان کی ذہانت و فطانت اور صلاحیتوں کی بنا پرسر کے خطاب سے نوازا گیا ۔
مورخ انہیں سر محمد اقبال لکھنے پر مجبور ہو ا ۔ بلاشبہ مسلمانانِ ہند کے لئے بھی یہ خطاب اعزاز کی بات تھی ۔ آج پاکستان بھر میں انتہائی مسرت کے ساتھ یوم ِ اقبال منایا جارہا ہے ۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال مسلمانانِ پاک و ہند کااثاثہ ہیں ،مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہم رسموں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں ۔ ہم بڑی شان کے ساتھ علامہ اقبال کا یوم ِ ولادت سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مناتے ہیں ، مگر جس غور و فکر ، تدبر اور سوچ کے نتیجے میں علامہ محمد اقبال ملک و ملت کا اقبال بنے ،اس فکر کے دامن کو کبھی ہم نے اپنا شعار بنانے کی کوشش نہیں کی ۔ علامہ محمد اقبالؒ کی زندگی کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کی سوچوں کا محور قرآن مجید تھا ۔ علامہ اقبال خانہ کعبہ کا طواف تو نہیں کرسکے تھے، مگر انہوں نے ساری زندگی قرآن کے لفظ لفظ کا طواف کیا تھا....اُن کی نثر اور ان کا منظوم کلام ،جسے دنیا کے کناروں تک شہرت ملی ، سب کا سب قرآن کی تفسیر دکھائی دیتا ہے ۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن پڑھنے والوں کو بار بار تاکید کی ہے کہ وہ غوروفکر سے کام لیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ محمد اقبال ؒ نے قرآن کی اس تاکید کو اپنے گلے کا تعویذ بنا لیا تھا ۔
علامہ محمد اقبال کے تدبر کا نتیجہ ہے کہ آج ہم ایک اسلامی ریاست میں آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ علامہ اقبال ؒ نے مسلمانانِ ہند کو اپنی شاعری کے ذریعے یہ باور کر وایا کہ دیکھو اگر تم چاہتے ہو کہ تم آزادانہ عبادات بجا لاسکو ، دنیا و دین میں آگے بڑھ سکو تو تمہیں نہ صرف انگریز سے آزادی حاصل کرنا ہو گی، بلکہ تمہیں ہندو معاشرے اور ثقافت سے بھی آزاد ہونا ہو گا ، ورنہ تم انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندو کی غلامی میں آجاﺅ گے ۔ یہ وہ دور تھا، جب انگریز سرکار خطے میں ہندوﺅں کو مسلمانوں سے افضل سمجھتی تھی اور مسلمانوں کو گویا ہندوﺅں کی موجودگی میں اقلیت گردانا جاتا تھا ۔یہ الگ بات کہ اس وقت ہندو اور مسلمان دونوں ہی انگریز کی غلامی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے ،مگر باوجود اس کے اقتدار کے ایوانوں میں ہندو نمائندوں کو مسلمانوں کی نسبت فوقیت دی جاتی تھی ۔ انہی حالات کے پیش نظر علامہ اقبالؒ نے انگریز حکمرانوں کو مخاطب کرکے کہا تھا:
وطن کی فکر کرنا داں ، قیامت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
پھر 14اگست 1947ءکو برطانوی حکمرانوںکے ہاتھوں سے عنانِ اقتدار چھن گئی ۔ مسلمانانِ ہند نے علامہ محمد اقبال کے خواب کو تعبیر سے ہمکنار ہوتے ہوئے دیکھ لیا ،مگر افسوس کہ علامہ محمد اقبالؒ کی، جس آنکھ نے ایک الگ ریاست کا خواب دیکھا تھا، وہ آنکھ پاکستان کے معرض ِ وجود میں آنے سے 9برس قبل بند ہو گئی ۔
حق تو یہ تھا کہ مسلمانانِ ہند اپنے عظیم فلسفی ، شاعر اور دانشور علامہ محمد اقبالؒ کے عمل کو اپنے لئے لازم قرار دیتے ۔ ان کی سوچ کو اپنی سوچ کا محور بنا لیتے ۔ تدبر ، جستجو ، محنت اور عمل ِ پیہم کے ذریعے ترقی کے راستوں پر قدم رکھتے ہوئے کرئہ ارض پر ویسا نام پیدا کرتے، جیسا نام علامہ محمد اقبالؒ نے پیدا کیا ، مگر ہم نے صرف علامہ محمد اقبالؒ کا یوم ولاد ت اور یوم وفات منانے کو ہی اپنا نصب العین بنارکھا ہے ۔ شاید ! علامہ محمد اقبالؒ کی روح کو اس بات کی زیادہ خوشی محسوس ہوتی کہ جس قوم کے لئے انہوں نے جو سپنا دیکھا تھا ،اس قوم نے اس خواب کے تقدس کو کبھی پامال نہیں ہونے دیا ،مگر ہم بھول گئے کہ ہمارے اقبالؒ کی خواہش کیا تھی ؟ انہوں نے تو کہا تھا:
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں جب سے پاکستان بنا ہے ، پرائمری جماعتوں کے نصاب سے لے کر ایم اے کی نصابی کتب تک علامہ محمد اقبال کا یہ شعر آپ کو لکھا ہوا ملے گا ، مگر اس پر عمل کرنے والے خال خال ہی نظر آئیں گے ۔ہم بھی عجیب قوم ہیں کہ اپنے محسنوں ، مفکروں ، مفسروں ، مدبروں ، فلسفیوں ، شاعروں اور دانشوروں کو محض اُن کے یوم وفات یا یوم پیدائش پر ہی یاد کرتے ہیں ، باقی سارا سال ہمیں اُن کی ذات ، اُن کی سوچ اور ان کی خواہش کا کوئی احساس نہیں ہوتا ۔ آپ آج کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو کوئی ایسا اخبار ، جریدہ ، یا رسالہ نہیں ملے گا، جس میں اقبالؒ کا تذکرہ نہ ہو ، مگر کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا، جو آج کے دن یہ عہد کررہا ہو کہ اے ملک و ملت کے اقبال ؒ آج میں آپ کے یوم پیدائش پر یہ عہد کرتا ہوں کہ مَیں فکر اور تدبر کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنالوں گا۔
کاش ! آج کا دن ہمارے لئے اس عہد کا باعث بن جائے کہ ہر پاکستانی علامہ محمد اقبال کی سوچ کا خوگر ہو جائے ۔ آج ہمارے نوجوان یہ عہد کر لیں کہ وہ علامہ محمد اقبال کی تقلید میں ستاروں پر کمند ڈالے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ آج ہمارے بچے اس امر کا ثبوت بن جائیں کہ اس قوم کا ہر بچہ اقبال بننے کی خواہش لئے سوچ ،فکر ، محنت اور عمل کی مسافت پر گامزن ہو گیا ہے ۔ اور کاش ! کہ ہمارے ہر بوڑھے کو یہ احساس ہو جائے:
ہے جرم ضعیفی کی سزا ، مرگِ مفاجات