روحانی محفل، ذکر علی ہجویریؒ کا!
حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کو برصغیر میں ہدایت کے لئے تشریف لائے قریباً ایک ہزار سال ہونے کو ہیں۔
انہوں نے لاہور کو اپنا مسکن بنایا اور یہیں رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا، روحانیت کے اعلیٰ مرکز پر فائز حضرت داتا گنج بخشؒ کے حوالے سے اور تو بہت کچھ کہا، بتایا اور سنایا جاتا ہے تاہم ہمارے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی نے محترم سہیل وڑائچ کی ایک بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ حضرت علی ہجویریؒ نے تو خود اپنی کتاب میں لاہور کو ملتان کا قصبہ کہا، لیکن اُن کے فیوض برکات سے یہ اب قصبہ نہیں خود اُن کے نام سے موسوم شہروں کا شہر اور مُلک میں ممتاز درجہ کا مقام رکھتا ہے، اسے اب داتا کی نگری کہتے ہیں اور باہر سے آنے والے مسافر یا کسی حاجت مند کو یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ وہ اس نگری میں بھوکا نہیں سو سکتا، کچھ بھی نہ ملا تو داتا کے دربار سے پیٹ بھرنے کو کھانا تو مل ہی جائے گا۔ یہ اور اسی نوعیت کی گفتگو گزشتہ روز حضرت علی ہجویریؒ کے احاطہ مزار کے دائیں جانب لگائے پنڈال میں ہوئی۔ یہ نشست گاہ دو روزہ عالمی کانفرنس کے حوالے سے تھی، اس کانفرنس کو ’’الشیخ علی الہجویری اور برصغیر میں روحانی انقلاب‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا، دونوں روز دو دو نشستیں ہوئیں،چوتھی اور آخری نشست اہل قلم حضرات کے ساتھ تھی اور اس کی صدارت کا اعزاز محترم مجیب الرحمن شامی کو حاصل ہوا۔
ڈائریکٹر جنرل مذہبی امور اوقاف پنجاب ڈاکٹر طاہر رضا بخاری خود بھی صاحبِ علم اور باہمت جواں شخص ہیں، جنہوں نے اپنے اس ادارے کو ایک نئی جہت دی ہے اور زیادہ سے زیادہ علمی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجالس مذاکرہ، دینی مجالس اور علمی تقریبات کا انعقاد ان کی کاوش ہوتی ہے، ان میں دُنیا بھر سے معروف تر دینی علمی شخصیت کو مدعو کیا جاتا ہے اور ان کے مقالہ جات کو پھر تحریری شکل میں شائع بھی کیا جاتا ہے کہ علمی خزانہ محفوظ ہو جائے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کا عرس مبارک تو ہر سال ہی ہوتا ہے اور اس مرتبہ بھی ہو رہا ہے اور یہ974 واں عرس ہے،جو ان کے یوم وفات سے موسوم ہوتا ہے۔ یوں یقیناًحضرتؒ کی آمد کو ایک ہزار یا اس سے ایک دو سال زیادہ ہی ہو گئے ہوں گے۔
اہلِ قلم کی اِس محفل میں آنے والے معزز مہمانوں میں سید ارشاد عارف، سہیل وڑائچ، نوید اقبال چودھری، حسین پراچہ اور راقم بھی شامل تھے کہ ہم سب کو خطاب کا موقع مل گیا، جناب حفیظ اللہ نیازی، مزمل سہروردی اور لاہور پریس کلب کے سیکرٹری عبدالمجید ساجد بھی شریک محفل ہوئے۔
ہمارے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی اور دوسرے مقررین علمی سطح پر اپنا ایک مقام رکھتے ہیں کہ ان کو تحریر و تقریر میں یکساں مہارت حاصل ہے، شامی صاحب تو بلند پایہ خطیب کی حیثیت کے حامل ہیں۔
انہوں نے اپنے خطبۂ صدارت میں یہ واضح کیا کہ حضرت علی ہجویریؒ نے برصغیر میں آ کر اپنے عمل، اخلاق اور تعلیم کی وجہ سے تبلیغ کا فریضہ انجام دیا اور نورِ اسلام کی روشنی پھیلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس برصغیر اور اِسی لاہور میں بڑے بڑے بادشاہوں کی بڑی بڑی یاد گاریں بھی ہیں، ان کی اولاد بھی تھی اور یہیں یہ دربار بھی موجود ہے۔
حضرت علی ہجویریؒ لاہور میں رہے تو مجرد حیثیت سے زندگی گزاری اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی، کہتے ہیں کہ نرینہ اولاد سے نام چلتا ہے لیکن حضرتؒ کی تو کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی، آج ہزار سال ہونے کو آئے، بادشاہوں کو کوئی جانتا نہیں اور اس درویش کے آستانے پر لاکھوں، کروڑوں عقیدت مندوں کی آمد ہوتی ہے یہ آج بھی زندہ و جاوید نام ہے یوں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ والوں اور باعمل حضرات ہی کا نام زندہ ہے۔ان بزرگوں نے اپنے عملِ صالح ہی سے دین کی روشنی پھیلائی اور ہم کو بھی عمل ہی کی راہ اپنانا چاہئے۔
روزنامہ’’92‘‘ کے گروپ ایڈیٹر اور روحانی گھرانے کے فرد ارشاد احمد عارف نے بھی حضرت علی ہجویریؒ کی دینی اور علمی خدمات ہی کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ اُن کے تمام اعمال اللہ کی رضا اور خوشنودی کے مطابق تھے۔ حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ نے یہاں چلہ کشی کی وہ یہاں رہ سکتے اور ایسا چاہتے تھے، رضائے الٰہی یہ تھی کہ وہ دور دراز جا کر روشنی پھیلائیں اور انہوں نے راجپوتانہ کے ریگزار کو رونق بخشی اور پھر انہوں نے شہاب الدین غوری کے لئے بادشاہت کی پیشگوئی کی جو بادشاہ ہوئے اور راجپوتانہ کے جری حضرات نے بھی اطاعت قبول کی اور راجپوتانہ میں بھی اسلام کی روشنی پھیلی۔ ان کا کہنا تھا کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کی تصنیف کشف المحجوب ایک ایسی کتاب ہے، جس کے بارے میں حضرت معین الدین چشتی ؒ نے کہا کہ اگر کسی شخص کو بیعت کے لئے مرشد کامل نہ مل سکے تو وہ کشف المحجوب سے استفادہ کر سکتا ہے کہ یہ تصنیف ولی کامل کی کمی پوری کر دیتی ہے۔
سہیل وڑائچ نے قرار دیا کہ داتا گنج بخشؒ کی آمد اور ان کی برکت سے یہ لاہور شہر پھیلا، اور انہوں نے یہاں دین کی خدمت کی اور برصغیر میں بادشاہوں نہیں ان درویشوں اور صوفیا کی وجہ سے اسلام نے ترقی کی۔
سہیل وڑائچ کے مطابق کشف المحجوب ان کی کرامت بھی ہے اور اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ مرحوم مولانا طفیل محمد نے اس کا ترجمہ بھی کیا اور تفسیر تک لکھ ڈالی۔ برادرم نوید اقبال چودھری نے عمل کی اہمیت پر زور دیا ان کے مطابق حضرت علی ہجویریؒ نے اپنے عمل سے ثبوت دیا، حضور اکرمؐ اور صحابہ کبارؓ نے بھی دین کو عمل ہی سے پھیلایا تھا۔
آج اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ اسوہ حسنہؐ کی پیروی میں عمل کو اپنایا جائے، جناب حسین پراچہ بھی دینی علمی گھرانے سے تعلق رکھنے ہیں۔انہوں نے صوفیاء کے کردار کا ذکر کیا اور بتایا کہ یہ صاحبِ کردار حضرات اپنے عمل سے ثبوت مہیا کرتے تھے، حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک صاحبِ علم انسان کو چند سوالات کے جواب درکار تھے، جو اس کو کسی سے بھی نہ ملے تو اسے بتایا گیا کہ وہ اجودھن (پاکپتن موجودہ) کا سفر اختیار کرے اور حضرت بابا فریدؒ سے رجوع کر کے سوالات کا جواب حاصل کر لے وہ شخص سفر کرتا ہوا پاکپتن (اجودھن) پہنچا تو حضرت بابا فریدؒ کی محفل آراستہ تھی اور وہاں ان کے مرید حضرت نظام الدین اولیاء بھی تشریف فرما تھے، مذکورہ شخص نے اپنے سوالات دہرائے تو وہاں موجود نظام الدین اولیاء نے فر فر ان کے جواب دے دیئے کہ حضرت صاحب تو ایک طرف ان کے مرید تک یہ جواب دے سکتے ہیں وہ شخص سوالات کے جواب پا کر رخصت ہوا تو بابا فریدؒ حضرت نظام الدینؒ اولیاء سے خفا ہوئے اور کہا کہ آنے والے کے ’’پندار‘‘ کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے، اسے جواب تو مل گئے، لیکن پوری تشفی نہیں، لہٰذا حضرت نظام الدینؒ جا کر اس سے معذرت کریں، حضرت نظام الدینؒ نے بھاگ کر اس جاتے شخص کو جا لیا اور اس سے معافی طلب کی اور بتایا کہ ان کے رشد کا فرمان ہے، وہ شخص متاثر ہوا اور وہاں پاکپتن چلا آیا اور مرید ہونے کی استدعا کی۔بابا فرید الدینؒ گنج شکر نے تسلی کر کے اسے مرید بنا لیا۔
راقم کو بھی کچھ تو کہنا ہی تھا کہ ایسے شعلہ بیاں مقرر حضرات کی موجودگی میں الفاظ بھی تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ بہرحال ہم نے اسی دربار کے احاط میں مدفون اپنے بزرگ حضرت علامہ ابو الحسنات کا ایک واقعہ بیان کیا۔
ہم نے ان سے بعض شرعی نوعیت کے مسائل معلوم کرنا چاہے تو ان کا پہلا فرمان یہ تھا کہ صاحبزادے تم سے اللہ نے ان مسائل کا نہیں، تمہارے اپنے اعمال کا حساب لینا ہے، اس لئے تم اپنے اعمال کو درست کرو اور یہ مسائل عالم حضرات کے لئے رہنے دو‘ پھر اسی ضمن میں انہوں نے ایک تشریح کی اور فرمایا:’’حدیث کا علم بھی کوئی عام شخص حاصل اور بیان نہیں کر سکتا اور اس کے لئے یہ شرائط لازم ہیں۔ مذکورہ شخص یا عالم کو اپنی زبان پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہئے۔
پھر عربی کی اعلیٰ مہارت بھی ضروری ہے اور اضافی طور پر جغرافیہ اور تاریخ کا علم بھی مکمل طور پر ہونا چاہئے، ایسی ہی صورت میں ایسا انسان حدیث کے حوالے سے گفتگو کر سکتا ہے۔ہماری گزارش یہ تھی کہ حضرت علی ہجویری کی آمد کو ایک ہزار سال ہونے کو ہیں، تاریخ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ دو سوا دو سو سال سے پہلے ان کی ذات یا صوفیا کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا اور نہ ہی دین کے بارے میں کوئی کنفیوژن تھا، یہ سب دو ڈھائی سو سال سے ہے جس نے معاشرے کو خراب کیا، لہٰذا ان فروعی نوعیت کے معاملات کو چھوڑ کر اسوہ حسنہؐ کی پیروی کر کے درست اعمال کا ثبوت دینا ہو گا۔ جھوٹ ترک اور سچ کو اپنانا ہو گا۔
یہ گزارش کر چکے کہ یہ ایک نئی جہت ہے اور اچھا انتظام تھا۔ ڈاکٹر طاہر بخاری اور کوآرڈی نیٹر ضیاء نقشبندی کے مطابق آئندہ برس اس عمل کو مزید توسیع دی جائے گی۔