احتساب عدالت کے لیے بھی کافی مشکل پیدا کر دی گئی ، ججز دباﺅ میں ہیں ،اختیارات سے تجاوزکیا:سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر

احتساب عدالت کے لیے بھی کافی مشکل پیدا کر دی گئی ، ججز دباﺅ میں ہیں ،اختیارات ...
احتساب عدالت کے لیے بھی کافی مشکل پیدا کر دی گئی ، ججز دباﺅ میں ہیں ،اختیارات سے تجاوزکیا:سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی (ویب ڈیسک) سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا ہے کہ ججز دباﺅ میں ہیں ،اختیارات سے تجاوزکیا،گاڈ فادر یامیاں صاحب نے بے وقوف بنانے کی کوشش کی، ججوں کو ایسے ریمارکس نہیں دینے چاہئیں ،احتساب عدالت کے لیے بھی کافی مشکل پیدا کردی گئی ہے ، مانیٹرنگ جج کی تعیناتی ان کی سمجھ سے بالاتر ہے ، اس وقت ن لیگ اور سپریم کورٹ آمنے سامنے کھڑے نظر آرہے ہیں،  لیکن آرڈر بھی چونکہ strict legality کے مطابق نہیں توا گر سپریم کورٹ بھی قانون پر strictly نہیں چلے گی تو پھر  سیاستدانوں کی بھی اپنی طاقت ہوتی ہے ، ردعمل دیں گے تو  یقینا پھر پاکستان کی جگ ہنسائی ہوگی اور کیا ہوگا۔

نوازشریف کی اپیل مسترد ہونے کے فیصلے میں سخت الفاظ اور شعر پڑھنے سے متعلق سوال کے جواب میں سابق اٹارٹی جنرل عرفان قادر نے  کہا کہ یہ ایک بڑی unpleasunt situation کی طرف ہم چلے گئے ہیں، جن جج صاحب نے یہ فیصلہ لکھا ہے انہی کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ صدیوں یاد رکھا جائے گا، اسی کے حوالے سے نواز شریف نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ تاریخ کے سیاہ اوراق میں لکھا جائے گا کوئی اس طرح کی انہوں نے بات کی ہے، جج صاحبان کواس طرح کے ریمارکس نہیں دینے چاہئیں، کچھ ریمارکس نہیں لکھنے چاہئیں خاص طور جس طرح گاڈ فادر کا پورشن لکھا گیا یا جس طرح یہاں پر بھی ایک شعر لکھ دیا گیا، یہاں پر بھی لکھ دیا کہ جو میاں صاحب ہیں انہوں نے پارلیمنٹ کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی اور پھر اس کے ساتھ ابراہم لنکن کا qoute اسکے ساتھ منسلک کردیا کہ "You can fool all the people some of the time, some of the people all the time but not all the people all the time." یہ اتنی سخت باتیں جب آپ لکھیں گے پھر at the same time سپریم کورٹ نے سارا فیصلہ کافی حدتک ریویو بھی کردیا، انہوں نے اس چیز کی وضاحت کردی کہ ہماری جو بھی فائنڈنگز ہیں آبزرویشنز ہیں وہ تو uncertain ہیں، وہ temporary ہیں، انہوں نے tentative کا لفظ استعمال کیا، tentative کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ which is uncertain, which is not definate تو جب خود ہی اتنے سارے صفحے لکھ کر یہ کہہ دیا کہ وہ tentative assessment ہے تو پھرا سی tentative assessment پر نواز شریف کو نااہل بھی کردیا گیا کیونکہ انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ کون سا حصہ tentative ہے اور کون سا حصہ tentative نہیں ہے کیونکہ عدالت کے فیصلے کے دو حصے ہوتے ہیں، ایک حصے کو ہم قانونی اصطلاح میںratio decidendi یعنی یہ وہ حصہ ہوتا ہے جو operative part ہوتا ہے کسی آرڈر کا جس پر عملدرآمد ہونا ہوتا ہے، دوسرا حصہ وہ  ہوتا ہے جو تھوڑی سی آبزرویشنز ہوتی ہیں لیکن اس کا بہت کم حصہ ہوتا ہے ، یہ عدالتیں کبھی پاسنگ ریفرنسز کرتی ہیں لیکن یہ بہت تھوڑا ہوتا ہے، یہ تین چار سو صفحات پر محیط نہیں ہوتا،یہاں پر انہوں نے تقریباً سارے کے سارے کو کہہ دیا کہ ہم نے توا یک tentative assessment کی ہے، ایک سال میں اگر tentative assessment کی تھی تو فیصلہ ٹرائل کورٹ نے کرنا تھا تو اتنا زیادہ tentative assessment کرنے کی پہلی بات ضرورت کیوں پیش آئی؟اگر ان کو یہ tentative assessment کرتے ہوئے ایک سال کا عرصہ لگ گیا تو احتساب عدالت جو ہے وہ کیا چھ مہینے میں decide کرپائے گی؟ یہ جو سارے تضادات ہیں اور ان میں کچھ باتیں کی گئیں، کچھ لٹریچر کا انحصار کیا گیا ،اس طرح کے ریمارکس عدالتوں کو آبزرویشنز بھی نہیں دینی چاہئیں ورنہ اس کا ری ایکشن دوسری طرف سے آتا ہے، دنیا میں اب یہ توہین عدالت نہیں رہی کہ اگر آپ کسی جج کے کسی فیصلے کو یا کسی ریمارکس پر تنقید کریں، یورپ میں اور امریکا میں تو اس طرح کی contempt obsolete ہوگئی ہے وہاں پر ایسی چیزپر ضرور contempt لگتی سکتی ہے اگر کوئی فیصلے کی راہ یاعملدآمد کے راستے میں رکاوٹ بنے لیکن اگر اس کی ذات کی حد تک کسی طرح کی بھی تنقید آئے ،بے شک strongest words میں ہو تو اس طرح کی contempt ججز entertain نہیں کرتے۔

مانیٹرنگ جج کی تعیناتی سے متعلق سوال کے جواب میں عرفان قادر نے بتایاکہ مجھے وہ بالکل کچھ سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا مانیٹر کریں گے اور کون سے فنکشنز ہیں جو انہوں نے بطور مانیٹرنگ جج پرفارم کرنے ہیں، احتساب عدالت کیلئے بھی اب کافی مشکل پیدا کردی گئی ہے، اس وقت پی ایم ایل این اور سپریم کورٹ آمنے سامنے کھڑے نظر آرہے ہیں، یہ آمنے سامنے کبھی نہ کھڑے ہوتے اگر order strict legality کو comply کرتا لیکن آرڈر بھی چونکہ strict legality کے مطابق نہیں توا گر سپریم کورٹ بھی قانون پر strictly نہیں چلے گی تو پھر جو سیاستدان ہیں پھر آپ کو پتا ہے ان کی اپنی ایک طاقت ہے، وہ پبلک کے سامنے ہیں تو وہ بھی جب اپنا rhetoric استعمال کریں گے تو اس سے نقصان کس کا ہوگا، یقینا پھر پاکستان کی جگ ہنسائی ہوگی اور کیا ہوگا۔

مزید :

کراچی -