اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 77
چنگیز خان بڑی تیزی سے پروان چڑھا۔ اسے بچپن ہی سے احساس تھا کہ قدرت نے اسے تمام دنیا کے منگولوں کا حاکم اعلیٰ بنانے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس نے بہت جلد اپنے آپ کو تمام منگول قبائل کا سردار تسلیم کروا لیا اور شمالی چین پر حملہ کردیا۔ وہ قصبوں آبادیوں کو روندتا ،شہروں کو آگ لگاتا خلق خدا کو بے دریغ قتل کرتا آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ اس نے بہت جلد شمالی چین ، ایران اور روس تک پھیلے ہوئے ساری علاقے فتح کر لئے۔
سلطان علاء الدین محمد اس قیامت خیز ابھرتے ہوئے منگول فتنے سے بے خبر نہیں تھا مگر اسے اپنی اس سلطنت پر بڑا گھمنڈ تھا جس کی بنیادوں کو عیاشی اور سازشوں کی دیمک چاٹ چکی تھی۔ جب چنگیز خان کے پیکنگ فتح کرنے کی خبر پہنچی تو بادشاہ کے چہرے پر فکر و تشویش کا پہلی لہرابھری۔ خاتون چین اس وقت کے طاقتور ترین بادشاہوں میں سے تھا۔ چنگیز خان نے اسے شکست فاش دی تھی اور یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ سلطان نہ فیصلہ کیا کہ چنگیز خان کے دربار میں ایک سفارتی وفد بھیجا جائے تاکہ چنگیز خان کا عندیہ معلوم ہو۔
میں بھی اس سفارتی وفد کے ہمراہ تھا۔ میری حیثیت سرکاری دبیر شاہی کی تھی اور مجھے روزنامچہ مرتب کرنا تھا۔ کئی مہینوں کا سفر طے کر کے جب ہم ان علاقوں میں پہنچے جنہیں چنگیز خان کی فوجوں نے تاخت و تاراج کیا تھا تو ہمیں جگہ جگہ سروں کے مینار نظر آئے اور زمین پر ٹخنوں تک خون جما ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر وفد کے ارکان کے جسموں میں خوف کی لہر سرد دوڑ گئی۔ پیکنگ میں سفارتی وفد کا شایان شان خیر مقدم کیا گیا۔ ہمیں شاہی خیموں میں ٹھہرایا گیا اور تھالیوں میں پنیر کے ٹکڑے اور دودھ کا مشروب پیش کیا گیا ۔
دو روز بعد ہمیں چنگیز خان کے دربار میں پیش کیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ مشرق کا یہ خونخوار وحشی درمیانے قد کا آدمی تھا جس کی عمر چالیس سال کے قریب تھی وہ طلائی مسند پر تلوار لگائے بیٹھا تھا۔ زرد آنکھوں سے سنگدلی ہویدا تھی جسم گٹھا ہو اتھا۔ وہ سلطان اور اسلام کے بارے میں سوال کرتا رہا۔ پھر اس نے پیغام دیا کہ سلطان سے کہو کہ ہم اسے مغرب کا فرمانروا سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دونوں طرف کے سودا گر آیا جایا کریں۔ میں ایک ایک جملہ لکھتا جا رہا تھا۔
میں نے دیکھا کہ چنگیز خان کے قبیلے کے لوگ جفاکش اور عیاشیوں سے ناواقف تھے۔ بچہ بچہ شہسوار تھا اور لڑتے وقت ہنستے تھے۔ مشکوں پر لیٹ کر دریا عبور کرتے تھے۔ جب ہمارا وفد واپس جانے لگا تو چنگیز خان نے سلطان کے لئے سونے کا ایک ڈلا تحفے کے طور پر ساتھ بھیجا۔ سونے کے اس ڈلے کو دیکھ کر سلطان اور اس کے تمام درباری انگشت بدنداں رہ گئے۔ ان دنوں سلطان خورازم شاہ خلیفہ وقت ناصر سے عداوت رکھتا تھا اور اس نے شہاب الدین غوری کو پیغام بھی بھیجا تھا کہ وہ بغداد پر چڑھائی کر کے خلیفہ ناصر کی حکومت کا تختہ الٹ دے مگر غوری سے ایسا نہیں کیا تھا۔ سلطان علاء الدین محمد نے لوگوں کے دل فتح نہیں کئے تھے۔ معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار تھا۔ ہر طرف منافقت کا دور دورہ تھا۔ امراء طاؤس و رباب کی رنگینیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔
یہ افواہیں بھی عام پھیل گئیں کہ چنگیز خان کے جاسوس جگہ جگہ پھر رہے ہیں۔ ان ہی دنوں چنگیز خان کے ملک سے سودا گروں کا ایک قافلہ آیا جا کو سلطان کے معمتد خاص نے جاسوس قرار دے کر گرفتار کرلیا اور بعد میں سلطان کے حکم سے انہیں قتل کر دیا گیا۔ چنگیز خان کو سودا گروں کے قتل عام کو اندوہناک خبر پہنچی تو اس نے اپنا ایک خاص ایلچی سفیر خوارزم شاہی دربار میں بھیجا تاکہ واقعے کی وضاحت معلوم کی جائے۔ سلطان علاء الدین طاقت کے نشے میں چور تھا۔ اس نے اس وضاحت طلبی کو بھی اپنی توہین سمجھا اور حکم دیا کہ چنگیز خان کے سفیر کی داڑھی مونڈھ دی جائے۔ دربار میں حجام بلا کر چنگیزی سفیر کی داڑھی مونڈھ دی گئی۔ سلطان نے بڑے تکبر سے کہا کہ جاؤ اپنے بادشاہ سے کہو کہ ہم اسے بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
جب یہ سفیر ذلت و رسوائی اٹھانے کے بعد چنگیز خان کے پاس پہنچا تو چنگیز خان غصے سے کانپنے لگا۔ اس نے تلوار نیام سے نکال کر کہا۔
’’ میری تلوار خوارزم کی آنے والی نسلوں سے بھی اپنے آدمیوں کا انتقام لے گی۔ ‘‘
اور چنگیز خان کا لشکر بغداد ، نیشاپور کی طرف چل پڑا۔ موت اس خون آشام لشکر کے ساتھ رقص کرتی چل رہی تھی۔ چنگیز خان نے بغداد پر حملہ نہیں کیا تھا اس لئے کہ خلیفہ وقت درپردہ سازشیوں کی مدد سے چنگیز خان سے مل گیا تھا اور وہ خود چنگیز کے ہاتھوں خوارزم شاہ کو نیست و نابود کروانا چاہتا تھا۔ چنانچہ نیشاپور ، رے ، مرد اور خراسان تاتاریوں کی قتل و غارت کی آماجگاہ بن گئے۔ چنگیزی لشکر نے خوارزم شاہی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ نیشاپور جل رہا تھا۔ شاہی محلات میں آگ لگی ہوئی تھی۔ چنگیز خان کے لشکری تین روز سے شہر میں قتل عام کر رہے تھے۔ گلی کوچے خون سے بھر گئے تھے۔ ہر طرف لاشوں کے ڈھیر لگے تھے۔ آگ اور خون کے جس کھیل کو چنگیز خان نے مکمل چھوڑا تھا اسے اس کے بیٹے تولی کان ، پھر اس کے بیٹے منگو خان اور اس کے بیٹے ہلاکو خان نے مکمل کر دیا۔
جس وقت ہلاکو خان کا لشکر مشرق اور مشرقی ایشیا میں انسانی خون سے ہولی کھیل رہا تھا اس وقت بغداد پر عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کی حکومت تھی جو ایک زوال پذیر روایت کی علامت تھی۔ وہ کمزور ، عش پرست اور رقصو سردو کا ولدادہ تھا۔ اس عہد میں ہی فرقہ باطنیہ نے چاروں طرف اپنی دہشت بٹھا رکھی تھی۔ میں ایک مصری تاجر کی حیثیت سے خراسان میں آرام و سکون کے دن گزار رہا تھا۔حسن بن صباح فرقہ باطنیہ کا بانی اور سربراہ تھا۔ اس نے مملکت میں خون و ہراس کی لہر دوڑا رکھی تھی۔ خراسان کے قریب و جوار میں ہی قلعہ الموت تھا جو ایک بلند پہاڑی چٹان کے اوپر واقع تھا اور جسے فتح کرنا کسی بڑی سے بڑی فوج کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔ اس قلعے میں حسن بن صباح نے اپنی ایک جنت بنا رکھی تھی جہاں حسین عورتوں اور غلمان کے جھرمٹ لگے رہتے اور جہاں سادہ لوح لوگوں کو حالت نشہ میں پہنچا کر انہیں یقین دلادیا جاتا کہ حسن بن صباح ہی ان کو جنت میں پہنچانے کی صلاحت رکھتا ہے۔ یہ لوگ حسن بن صباح کے فدائی تھی اور دوبارہ اپنی جنت میں ہمیشہ کے لئے جانے کی خاطر حسن بن صباح کے لئے اپنی جان تک قربان کر دیتے تھے یہ فدائی بھیس بدل کر پھرتے تھے اور حسن بن صباح کے حکم پر لوگوں کو قتل کر دیتے۔
میں نظام الملک طوسی کے امراء کی صف میں شامل تھا اور طوسی حسن بن صباح کے قلعے کو تاخت و تاراج کرنے کی کئی بار کوشش کر چکا تھا۔ صباح مجھے ھی اپنا دشمن سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک فدائی کو مجھے ہلاک کرنے کے لئے بھیجا۔ وہ میری طاقت سے ناوافف تھا۔ سبھی میری طاقت سے ناواقف تھے۔ میں نے کبھی اپنی ماورائی طاقت کے مظاہرے کی کوشش نہیں کی۔ میں خراسان شہر کی ایک شاندار حویلی میں رہائش پذیر تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ حسن بن صباح کے فدائی مجھے ہلاک کرنے کی کوشش کریں گے۔ مگر میں جانتا تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ اس لئے ان سے بے نیاز تھا۔ آخر ایک رات ایک فدائی خنجر بکف میری خواب گاہ میں پہنچ گیا۔ اس وقت میں محض اپنے شوق کی وجہ سے سو رہا تھا ورنہ مجھے سونے کی حاجت نہیں ہوتی۔
میں محض لوگوں کو دکھانے کے لئے کھاتا پیتا ، تھکان کا اظہا رکرتا ، اور سوجاتاتھا۔ اس روز بھی میرا غلام میرے پاؤں دبا رہا تھا تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے نیند آرہی ہے وہ چلا جائے۔ جب وہ چلا گیا تو میرا ذہن اپنے واحد دوست قنطور کے بارے میں سوچنے لگا۔ قنطور بھی میری طرح صدیوں کا مسافر تھا اور اس سے ملے بھی صدیاں ہوگئی تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ خدا جانے کہاں ہوگا؟ اور کس حال میں ہوگا؟ اتنا مرے دل کو یقین تھا کہ وہ سانپ سے دوبار انسانی شکل اختیار کر چکا ہوگا۔ (جاری ہے)