زمان خان اور چودھری قدرت اللہ

 زمان خان اور چودھری قدرت اللہ
 زمان خان اور چودھری قدرت اللہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میں پچھلے چار ہفتوں سے امریکہ میں ہوں اور ابھی کچھ عرصہ یہیں رہنے کا ارادہ ہے۔ یہاں بہت پرانے دوستوں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ یہاں کی دلچسپیاں اپنی جگہ لیکن وطن عزیز سے قومی اور ذاتی نوعیت کی بڑی افسوسناک خبریں مل رہی ہیں۔ قومی زوال تو ایک دردِ مسلسل ہے اور اس سے فرار کی کوئی صورت مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہی لیکن ذاتی المیوں سے دل بہت اداس ہو گیا ہے۔
پچھلے دنوں ایک قریبیء دوست زمان خان میرے جانے کے چند دن بعد ہی اچانک ہمیشہ کے لئے ساتھ چھوڑ گئے۔ آنے سے چند دن پہلے میں نے انہیں اپنی کتاب ”پی ٹی وی میں مہ و سال“ کے دوسرے ایڈیشن کی کاپی بھیجی تو ان کا شکریے کا پیغام ملا لیکن اس میں اس المیے کی طرف کوئی اشارہ نہیں تھا۔1980ء میں پی ٹی وی نے مجھے فیصل آباد نیوز بیورو کا انچارج بنا دیا۔ اس وقت میرا آبائی ضلع بھی فیصل آباد تھا۔ 1982ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ ضلع بنا، میں نے گریجوایشن بھی گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے ہی کی تھی، لہٰذا وہاں قیام طویل ہو گیا۔ اس دوران بہت سے لوگوں سے دوستی ہوئی ان میں صحافیوں کے علاوہ ٹرید لینڈکامرس گروپ کے ملک سرفراز اور جمشید خٹک کے علاوہ ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر چودھری محمد اشرف بھی تھے۔ ملک سرفراز اور ڈاکٹر اشرف چند سال پہلے ہی دنیا چھور گئے اور اب زمان خان بھی روانہ ہو گئے گویا فیصل آباد سے تعلق تقریباً ختم ہو گیا۔


زمان خان ایک ہمہ جہت شخصیت تھے وہ بیک وقت سیاستدان، صحافی، وکیل،دانشور اور ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ تھے۔ انہوں نے لاہور سے سیاسیات میں ایم اے کیا اور ایل ایل بی کیا لیکن ڈگریوں کے باوجود انہوں نے نہ تو روائتی ملازمت کی اور نہ ہی باقاعدہ وکالت حاصل کی اس وقت کے لاہور کی علمی ادبی، صحافی اور سیاسی فضا ان پر حاوی ہو گئی اور رنگ اتنا گہرا تھا کہ وہ آخر وقت تک اپنی راہوں پر چلتے رہے۔ رائٹ اور لیفٹ کی جنگ میں ان کی گہری وابستگی لیفٹ سے رہی۔ وہ صرف نظریاتی شخصیت نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سیاست اور دوسری تحریکوں میں عملی حصہ لیا۔ وہ نیشنل عوامی پارٹی میں شامل رہے اور جب ضیاء الحق کے دور میں فیصل آباد دھوبی گھاٹ میں ایم آرڈی کا زبردست جلسہ ہوا،جس میں اپوزیشن کی اعلیٰ سطح کی قیادت نے شرکت کی، اس جلسے کی صدارت زمان خان نے کی۔ وہ انسانی حقوق کمیشن کے بانی ارکان میں سے تھے اور کئی سال کمیشن میں باقاعدہ کام کرتے رہے۔ انہوں نے اردو اور انگریزی میں بے شمار مضامین کے علاوہ کئی کتابیں لکھیں۔ بائیں بازو کے نظریات کے پختہ حامی ہونے کے باوجود ان کی گفتگو میں تلخی کا کوئی عنصر نہین تھا۔ دوستی تعلقات میں انہوں نے اس پہلو کو اپنی شخصیت پر حاوی نہیں ہونے دیا وہ وسیع المشرف آدمی تھے۔ میرے ساتھ ان کا تعلق کئی دہائیوں پر محیط تھا، جس میں کبھی فرق نہیں آیا، میں نے آخر فیصل آباد چھوڑ دیا اور اسلام آباد کو مستقل ٹھکانہ بنا لیا، لیکن ہمارے تعلقات میں فرق نہیں آیا وہ جب بھی اسلام آباد آئے مجھ سے ملاقات لازمی تھی۔ لاہور میں بھی اکثر وہ ہماری محفلوں میں شریک رہتے تھے، لہٰذا ان کی کمی محسوس ہوتی رہے گی۔


روزنامہ ”پاکستان“ کے ایگزیکٹو گروپ ایڈیٹر چودھری قدرت اللہ سے تعلق ذرا مختلف تھا، غالباً 1995ء میں مجھے لیبیا میں کرنل قذافی کے اقتدار سنبھالنے کے دن کے سلسلے میں خصوصی تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ روزنامہ ”جنگ“ کے رپورٹر ضیاء اقبال شاہد مرحوم بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ہم کچھ دن طرابلس میں المہاری ہوٹل میں قیام پذیر رہے۔ پھر طبروق جانے کا اتفاق ہوا، جہاں جلسہ ء عام میں کرنل قذافی کی تقریر سنی اور بعد میں طبروق ہوٹل میں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس دوران صحافیوں کا ایک گروپ بھی طبروق آ پہنچا جس میں فاروق اقدس، نوید معراج اور چودھری قدرت اللہ شامل تھے۔ یہاں چودھری صاحب سے تعارف ہوا جو طویل تعلق میں ڈھل گیا وہاں سے واپسی پر چودھری صاحب جو شاید اس وقت ”نوائے وقت“ میں تھے ”اِک ذرا طرابلس تک“ کے عنوان سے اپنے تاثرات لکھے۔ کچھ دن بعد میں نے بھی ”کرنل قذافی سے ایک ملاقات“ کے عنوان کے تحت دورے کی روداد ”نوائے وقت“ میں ہی لکھی۔ اس کے بعد اِکا دُکا ان سے ملاقات رہی، تاہم ایک واقعے سے ان سے قریبی تعلق بن گیا۔ ہوا یوں کہ میں 2016ء میں اپنی کتاب ”پی ٹی وی میں مہ وسال“ کے سلسلے میں مجیب الرحمن شامی صاحب سے ملنے گیا۔ میرے دوست شاہین فاروق صاحب بھی میرے ساتھ تھے۔

بعد میں ہم نے چودھری صاحب سے بھی ملاقات کی گپ شب کے دوران چودھری صاحب نے مجھے کہا کہ آپ ہمارے اخبار میں کالم لکھیں میری خاموشی دیکھ کر انہوں نے یہ پیشکش بھی کر دی کہ ہم آپ کو معقول معاوضہ بھی دیں گے۔ اگرچہ یہ وعدہ وفا نہ ہوا شاید ان کے اختیار میں نہیں تھا، تاہم میں نے کالم لکھنا شروع کر دیا اور وہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اگرچہ میں طالب علمی کے زمانے میں ”نوائے وقت“ میں کچھ عرصہ کالم، فیچر بھی لکھتا رہا تھا، ملازمت کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا، لیکن مجھے باقاعدہ کالم نگار بنانے کا کریڈٹ مرحوم چودھری قدرت اللہ کو جاتا ہے۔ ظاہر ہے پھر ان سے قریبی تعلق بن گیا۔ امریکہ آنے سے ہفتہ پہلے انہوں نے مجھے فون کیا اور اپنی بیماری اور دواؤں پر تبادلہ ء خیال کیا۔ اس وقت ان کی طبیعت کافی بہتر تھی۔ میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ان سے آخری بات چیت ہے۔ مرحوم انتہائی شریف النفس، مخلص اور عاجز طبیعت کے آدمی تھے، صحافت میں انہوں  نے طویل عرصہ گزارا اور اپنا مقام بنایا ان کی وفات سے مجھے ذاتی نقصان کا احساس ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں دوستوں کی روح کو سکون پہنچائے اور ان کے اہلِ خاندان کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت دے۔

مزید :

رائے -کالم -