چاہیں تو ہنس لیں - چاہیں تو ……!! 

چاہیں تو ہنس لیں - چاہیں تو ……!! 
چاہیں تو ہنس لیں - چاہیں تو ……!! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بعض لطائف ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر ہنستے ہنستے آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔ ہماری حکمرانی (گورننس) کی تاریخ کا غالباً جو سب سے بڑا لطیفہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے عوام کو دیا جانے والا ریلیف پیکج ہے۔ اس کا اعلان بدھ 3 نومبر کو کیا گیا۔ اس کا حجم 120 ارب روپے بتایا گیا۔ خوشخبری دی گئی کہ اس سے 13 کروڑ لوگ مستفید ہوں گے۔ دو کروڑ خاندانوں کو گھی، آٹا اور دالوں کی قیمتوں میں چھ ماہ تک 30 فیصد رعایت ملے گی۔ 40 لاکھ خاندانوں کو بلا سود قرضے دیں گے۔ کامیاب پاکستان کے لئے 14 سو ارب روپے دیئے جائیں گے۔ مارچ 22ء تک پنجاب میں صحت کارڈ کا اجراء مکمل ہو جائے گا۔ پیکج اتنا اہم اور متبرک سمجھا گیا کہ اس کا اعلان وزیر اعظم نے کھڑے ہو کر کیا۔ ورنہ وہ قوم سے بیٹھ کر نشریاتی خطاب کرنے کے عادی ہیں اور یہی ہماری قومی روایت ہے کہ سربراہان حکومت و مملکت جب قوم سے نشریاتی خطاب کرتے ہیں وہ اقتدار کی علامت کرسی پر بیٹھ کر کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کے سامعین و ناظرین اور ان کے اہلخانہ اس خطاب پر خوشی سے جھوم اٹھے حالانکہ یہ ”گا گے گی“ والا خطاب تھا۔ یہ تو نئی بات بھی نہیں تھی۔ ہمارے حکمران ہمیشہ ہی اعلانات بڑے بڑے کرتے ہیں ”یہ کر دیں گے“ وہ کر دیں گے۔ مگر عام آدمی تک صرف وعدے پہنچتے ہیں۔ ان کی تکمیل نہیں۔ ان تک محض خواب پہنچتے ہیں ان کی تعبیر نہیں عوام کو پھر بھی یقین کرنا پڑا کہ ایک مسلمہ و مصدقہ صادق و امین وزیر اعظم کھڑے ہو کر خطاب کر رہا ہے تو یہ محض وعدہ نہیں ہوگا۔ عہد ہوگا حلفیہ عہد کی طرح عام و خاص سبھی اس خطاب کے سحر میں مبتلا خوشی خوشی ایک بار پھر حسین خواب دیکھنے لگے۔

لیکن ہوا کیا؟ ادھر جس وقت وزیر اعظم عوام کو لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں اربوں کے فائدے دینے کا اعلان کر رہے تھے۔ ادھر عوام کی جیبوں سے بچا کھچا بھی نکالنے کے لئے گھی، چینی، خوردنی تیل، گڑ وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ یہ اضافہ کھلی منڈی کے تاجروں نے یا کریانے کے دکانداروں نے نہیں کیا بلکہ سرکاری محکمہ یوٹیلیٹی سٹور نے کیا۔ خوشی سے ہنسنے والوں کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ دعاؤں کے لئے پھیلنے والی جھولیاں، بددعاؤں سے بھرنے لگیں۔ یہ لطیفہ یا تماشہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ اگلے ہی روز جمعرات 4 نومبر کو پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کر دیا گیا۔ وہ بھی خوشخبری کے انداز میں۔ بتایا گیا کہ پٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے تین پیسے، ڈیزل کی قیمت میں آٹھ روپے 14 پیسے۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں چھ روپے 27 پیسے فی لیٹر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کہا گیا کہ شکر کریں آپ پاکستان میں رہتے ہیں۔ یہاں ابھی بھی تیل کی قیمتیں علاقے کے تمام ممالک سے کم ہیں۔ گویا ”ظلم بھی کرتے ہیں احسان کی طرح“ عوام پہلے ہنس لئے پھر رو لئے اب سوچ بچار میں مبتلا ہیں کہ پیکج کے تحت جن دو کروڑ خاندانوں کو آٹا گھی اور دالوں پر 30 فیصد رعایت ملے گی وہ کون سے خاندان ہوں گے۔ دو کروڑ خاندانوں کی آبادی تمام فارمولے کے تحت دس کروڑ ہو گی جبکہ میں 22 کروڑ سے زیادہ نفوس آباد ہیں۔

کریانے والے کو کیسے پتہ چلے گا کہ آنے والا گاہک پوری قیمت والا ہے یا رعایت والا ہے؟ اس کا یہ حل بتایا گیا کہ یہ فیصلہ حکومت کرے گی کہ رعایت کا مستحق کون ہے جو جو مستحق ٹھہریں گے ان کے نام نادرا کے ریکارڈ میں ڈال کر ان کے شناختی کارڈ کے نمبروں کی فہرست کمپیوٹر میں محفوظ کی جائے گی۔ جب کوئی گاہک سپر سٹور، ڈیپارٹمنٹل سٹور یا کریانے کی دکان پر جائے گا تو وہ شناختی کارڈ پیش کرے گا۔ کمپیوٹر سے اس کی حیثیت کا پتہ چلے گا۔ مستحق ہوا تو رعایت ورنہ پوری قیمت۔ اس جینٹری حکومت کے فارمولے انہی ممالک کے آزمودہ ہوتے ہیں جہاں سے پڑھ کر آئے ہیں۔ اپنے ملک کے بڑے شہروں میں سپر سٹور مل جاتے ہیں جہاں کمپیوٹر ہوتے ہیں، عملہ بھی وافر رکھا ہوتا ہے اور اگر بجلی چلی جائے تو توانائی کا مستقل انتظام بھی ہوتا ہے۔ چھوٹے قصبات اور دیہات میں یہ سہولتیں ابھی نہیں پہنچیں۔ بڑے شہروں کی محلے والی چھوٹی دکانوں کرایہ سٹوروں میں یہ سہولتیں ابھی موجود نہیں ہیں۔ مستحق افراد کی اکثریت سپر سٹوروں سے نہیں کریانے کی دکانوں سے سودا سلف لیتی ہے۔ اگر وہاں کمپیوٹر اور بجلی دونوں پہنچ بھی جائیں تو کمپیوٹر پر نادرا کے ریکارڈ سے مستحق کا نام نکالنے کی مہارت والا عملہ کہاں سے آئے گا۔ کریانے کی عام دکان پر تو ایک ہی بندہ ہوتا ہے جو آٹا چینی گھی دالیں بھی تولتا ہے اور گاہک سے مغز ماری بھی کرتا ہے۔ نئے پرانے نوٹوں کی پڑتال بھی کرتا ہے اور ریز گاری بھی دیتا ہے۔ پاؤ پاؤ کے گاہک دن میں کئی بار بھی آتے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ پیکج قابل عمل بھی ہے؟ سپر سٹوروں پر جانے والوں کو رعایت کی ضرورت نہیں اور کریانے والوں کے پاس رعایت دینے کی سہولت نہیں۔ یہ پیکج بھی کاغذوں میں پڑھنے، ریڈیو پر سننے اور ٹیلی ویژن پر دیکھنے کی حد تک ٹھیک ہے۔ عمل کے میدان میں البتہ مشکلات بہت ہوں گی۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے تبدیلی سرکار کو زمینی حقائق کا ادراک کب ہوگا؟؟ یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن وزارت خزانہ نے تو کمال ہی کر دیا۔ اتوار کو وزارت خزانہ کی طرف سے بتایا گیا کہ پاکستان اب چینی، چاول، مکئی اور کپاس کی پیداوار میں سرپلس ملک بن گیا ہے۔ یعنی ہمارے عوام کو ان اشیاء کی جتنی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سے زیادہ پیدا کر رہے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کے تمام اقتصادی اشاریئے ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ زراعت، مینو فیکچرنگ، برآمدات اور ٹیکس وصولیوں میں اضافے کا رجحان ہے۔ اسی روز وزیر اعظم کا دعویٰ یہ تھا کہ مہنگائی کے باوجود پاکستان کے حالات بہتر ہیں۔ ہم نے کورونا وبا کے اثرات کا دوسرے ملکوں کے مقابلے میں، بہتر کارکردگی کے ساتھ، بہتر مقابلہ کیا ہے۔ گویا اہل اقتدار کے ہاں سب اچھا ہے۔ ہرا ہی ہرا ہے۔ تاریکیاں تو عوام کے سامنے ہیں۔ اب آپ چاہیں تو ہنس لیں چاہیں تو ……
ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہیئے؟

مزید :

رائے -کالم -