صبح سے دل اداس ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم پاکستانیوں کی زندگی کیسے گزرے گی اور آئندہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا، گیس کا وہی مسئلہ اور ناشتے کے لئے تنور والوں کی محتاجی، میں عرصہ درازسے تنوری نان روٹی اور بیوریجزسے پرہیز کرتا چلا آرہا ہے۔ بیوریجز سے جان چھوٹے کو قریباً تیس سال ہو گئے ہیں۔ آج کل سموگ کا حملہ ہے اس کی وجہ سے ہم جیسے بوڑھے اور ادویات کے محتاج شہریوں کی پریشانی یوں بھی دوچند ہے۔ سموگ دھوئیں کے بادلوں کی طرح ہے اور سانس لینا دشوار ہے۔ کووڈ والا ماسک استعمال کرنے پر مجبور ہوگیا ہوں، تاہم باہر کے حالات دیکھ کر دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ عام حضرات و خواتین اور محنت کش لوگ کسی فکر کے بغیر ماسک نہ پہن کر کام کاج میں مصروف ہیں۔ شاید یہ سب اُکتا گئے کہ پہلے گرمی کا موسم طوالت اختیار کر گیا ہے۔ نومبر کا دوسرا ہفتہ شروع ہو گیا مگر سردی تو کیا خنکی کا دور دور تک پتہ نہیں، میرے لئے تشویش کا باعث یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا چرچا ہے، اللہ کسی کو یاد نہیں، خصوصاً ہم مسلمان تو اتنے بے فکر اور لاپرواہ ہیں کہ آخرت کی فکر ہی سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ بلاشبہ سائنس و ٹیکنالوجی علم ہے اور علم بھی تو اللہ ہی نے سکھایا، وہ قرآن شریف میں خود فرماتا ہے کہ اسی نے انسان کو علم سکھایا اور بولنے کی توفیق عطا فرمائی،ہم مسلمانوں کو تو اسی روشنی میں فرامین رسولؐ پر غور کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ پندرہ سو سال قبل ہمارے لئے کیا بتایا گیا تھا، حالات کا ذکر کرنے کے بعد کیا ہدائت دی گئی تھی اور عمل نہ کرنے کی صورت میں کن حالات کا ذکر کیا گیا تھا، قارئین کرام! یہ وعظ نہیں، میرے دل کی آواز ہے کہ حضوراکرمؐ نے اسی دور کے لئے فرمایا تھا،دولت کی فراوانی ہو گی،ایمان کمزور ہوں گے اور اللہ کے احکام جو خود انؐ کی وساطت سے ہم تک پہنچے ان کی نافرمانی کی جائے گی۔آج ناانصافی، ظلم، جھوٹ، ریاکاری، فریب اور بددیانتی کا دورہ دورہ ہے اور کسی کو اللہ اور رسولؐ کے فرامین کا خیال اور خوف بھی نہیں۔
سموگ کا ذکر ہو رہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ میں بھی درخواست زیر سماعت ہے اور جسٹس شاہد بار بار ہدایات جاری کررہے ہیں، کوئی عمل اور اثر نہیں ہوتا، آج دو شعبوں کا ذکر کرتے ہیں جو اس سموگ میں بھی اپنا حصہ ڈال کر ”داد“ بھی وصول کررہے ہیں۔ پہلا شعبہ پی ایچ اے ہے جو شہر ہی نہیں شہروں کو سرسبز بنانے کا ذمہ دار ہے، یہ شعبہ کمال عقل مندی اور ہوشیاری سے اپنے نمبر بڑھا رہا ہے اور سموگ میں اضافے اور سبزے میں کمی کا بھی ذمہ دار ہے۔ آج یہ خبر پڑھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ پی ایچ اے نے سموگ کی روک تھام کے لئے لاہور میں ”لنگز آف لاہور“ کا منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، درحقیقت یہ وہ فیصلہ ہے جو وزیراعلیٰ مریم نوازکی صدارت میں سموگ کے حوالے سے ہوا اور شہر کو سبزے کی دیوار سے محفوظ کرنے کا فیصلہ اور حکم ہوا، پی ایچ اے کی پہلی کارکردگی ہی پڑتال اور تحقیق کی متقاضی ہے کہ یہ شعبہ شوبازی کا مظاہرہ کرنے میں کمال کی مہارت رکھتا ہے، شہر کی خوبصورتی کا ذکر ہوا تو پی ایچ اے نے کینال کے کناروں اور لاہور کی دو سڑکوں کو روشنیوں سے سجا دیا کہ جہاں سے وی آئی پیز کا گزر ہوتا ہے اور انہی علاقوں کے سبزے کو محفوظ بنانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔اس کے باوجود کینال کے دونوں کناروں پر سوکھے سڑے درخت نظر آ جاتے ہیں اور ان کے متبادل کی فکر نہیں کی جاتی، اس کے علاوہ یہ شعبہ سال میں دو بار لاہور میں شجرکاری کرتا ہے۔ جب سے یہ شعبہ الگ قائم کیا گیا تب سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آڈٹ کراکے یہ دیکھا جائے کہ شجرکاری مہم میں حصہ لینے کے پہلے سال سے اب تک کتنے پودے لگائے گئے اور ان میں سے کتنے درخت بن سکے۔ جب ایسا ہوگا تو عوام و خواص کو پریشانی اور حیرت کا جھٹکا نہیں جھٹکے لگیں گے کہ اب تک لاکھوں پودے لگائے جا چکے ان میں پرورش کی شرح بمشکل 0.1ہے۔ باقی یا تو کاغذات میں لگتے ہیں یا پھر بھینسیں کھا جاتی ہیں۔
بھینسوں کا جہاں تک تعلق ہے تو ہر شہری اپنے اپنے علاقے میں دیکھ سکتا ہے اگر مزید نظر ڈالنا مقصود ہو تو علامہ اقبال ٹاؤن اور مصطفےٰ ٹاؤن تشریف لے آئیں، جہاں آپ کو بھینسیں گرین بیلٹوں میں شفٹوں کے حساب سے گھاس اور پودے کھاتی نظر آئیں گی صرف یہی نہیں، یہاں آپ کو بھیڑوں کے غول بھی دکھائیں دیں گے، مالی اور سپروائزر کے بقول اتھارٹی حکام کو متعلقہ ڈائریکٹر کے ذریعے کئی بار بتایا گیا۔ پولیس میں رپورٹ کی اثر نہیں ہوتا، اگر مالی منع کریں تو ان سے جھگڑا کیا جاتا ہے۔ تازہ ترین حالات یہ ہیں کہ لاہور کی پارکیں طوفان سے تباہی کا منظر پیش کرتی ہیں، اتھارٹی کے لئے جیلانی پارک اور اقبال پارک مقدم ہیں جبکہ شاہراہ قائداعظم (مال روڈ)، گلبرگ اور جیل روڈ جیسی سڑکوں کی کیاریوں کی دیکھ بھال تو ہوتی ہے باقی شہر کی فکر نہیں کہ حکام کو یہی سب نظر آتا ہے اس کے علاوہ وحدت روڈ پر جتنے تعلیمی ادارے اور شادی ہال ہیں ان کے سامنے گرین بیلٹ ان کے زیر استعمال پارکنگ کا کام دے رہی ہیں،ان کو ٹوکنے والا کوئی نہیں، پی ایچ اے کی طرف سے ایل ڈی اے کو ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے اور خود ان سے کچھ نہیں ہوتا اور نہ ہی حکام بالا کو نظر آتا ہے، کہ شادی ہالوں کے سامنے گرین بیلٹس کے پودے اور گھاس بھی ختم ہو چکا ہے اگرچہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار تنقید کا نشانہ ہیں،تاہم جب انہوں نے شادی گھروں کی پارکنگ چیک کی اور پارکنگ کے لئے جگہ نہ ہونے والے شادی ہالز پر پابندی لگائی تو ہاہار کار مچ گئی تھی اور پھر ایل ڈی اے کی گورننگ باڈی نے سہولتی ترمیم منظور کی۔ اگرچہ اس ترمیم کی رو سے گرین بیلٹ پر قبضہ جائز قرار نہیں دیا گیا لیکن یہ سلسلہ جاری ہے۔
اب ذرا علاقائی پارکوں کا ذکر ہو جائے، گذشتہ زور دار بارشوں کی وجہ سے مصطفےٰ ٹاؤن اور بعض دوسری آبادیوں کی پارکوں کی دیواریں گر گئیں، لوہے کے جنگلے محفوظ کرنے کے نام پر پی ایچ اے والے مالی لے گئے۔ مصطفےٰ ٹاؤن کے جنگلے خود کو سپروائزر بتا کروقاص نام کا شخص تمام جنگلے لے گیا، دیواروں کی اینٹیں پارکوں کے اندر پڑی اور جنگلے غائب ہیں، برسات ختم ہوئے عرصہ ہو گیا تاحال مرمت کا کام شروع نہیں ہوا اور پارکیں ویرانے کا منظر پیش کرنے لگی ہیں۔
قارئین! خیال تو تھا کہ آج ٹریفک کی حالت کا بھی ساتھ ذکر کروں گا لیکن پی ایچ اے کی کارکردگی بھی پوری طرح مکمل نہیں کر پایا اس لئے یہ پھر سہی اور اسی طرح الگ الگ شعبوں کا ذکر کروں گا، صوبائی حکومت نے اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم پی اے کو پی ایچ اے کا چیئرمین بنایا ہے، ان کا تعلق شمالی لاہور کے علاقے شادباغ سے ہے وہ مسائل کو جانتے ہیں، معلوم نہیں اب تک ان کی کارکردگی کیوں نظر نہیں آئی۔