پاکستان ریلوے.... افکارِ پریشاں (4)
پلاننگ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک ہے، جس کی مثال یہ کائنات ہے، جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک نپی تُلی منصوبہ بندی سے وجود میں آئی ہے، لیکن ریلوے میں پلاننگ کے شعبے کوجو وُقعت دی گئی آنے والے مندرجات سے ظاہر ہوجائے گا۔ وزارتِ ریلوے میں ایک پلاننگ ڈائریکٹوریٹ قائم ہے۔ راقم اس یونٹ کا پہلا ریسرچ آفیسر تھا۔ یہ ادارہ صرف 5 افسران پر مشتمل تھا۔ اس ادارے میں recruitment rules پر کبھی عمل درآمد نہ کیا گیا۔ عام طور پر اس شعبے میں persona non grata بھیجے جاتے، یا ان آسامیوں کو پُر کرنے کے لئے ایسے افسران آتے جو خالی آسامی پر بطور acting لگائے جاتے اور ترقی پاکر (چند ماہ کے بعد) ریلوے ہیڈ کوارٹر سدھارتے یا وہ لوگ جو اسلام آباد، راولپنڈی رہنا چاہتے، اس پوسٹنگ کی خواہش کرتے۔ راقمِ ڈائریکٹر پلاننگ کے عہدہ پر رےٹائر ہونے تک ہر گریڈ کے لئے ترقی کی جنگ لڑتا رہا،کیونکہ وزارتِ ریلوے میں administration ریلوے والوں کے ہاتھ رہی اور خالی آسامی کی صورت میں ریلوے کا افسر ہی پوسٹ کیا جاتا۔ تین دہائیاں اسی تگ و دو میں گزر گئیں۔ کبھی ریلوے والے جیت جاتے، کبھی راقم۔ اگر کبھی short-sizing ہوتی یا right sizing ہوتی تو نزلہ پلاننگ ڈائریکٹوریٹ پر گرتا۔ جب راقم نے بطور ریسرچ آفیسر وزارتِ ریلوے میں ملازمت کا آغاز کیا تو ریلوے وزارت میں کوئی ایسا افسر نہیں تھا جو مجھے میرے job کی مبتدیات بتاتا۔ ذاتی طور پر project appraisal کی کتابوں کو حاصل کیا اور خود ہی ان کو سمجھا۔ وزارت میں ایک لولی لنگڑی لائبریری بھی نہیں تھی۔ متعلقہ موضوعات پر کتابوں کے لئے admin کو لکھا۔ رقم بھی منظور ہوگئی، لیکن کتابوں کی خرید کی توفیق نہ ہوئی۔ ایک دفعہ پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کے لئے لندن جانے کا اتفاق ہوا۔ اس سے میرے علم میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا، کیونکہ وہ سب کچھ میں پہلے ہی جانتا تھا۔ میں نے اپنے تعلیمی ادارے کے ذریعہ برٹش ریلوے بورڈ میں attachment کے لئے درخواست دی، تاکہ اُن کے پلاننگ کے طریقوں (methods) کو جان سکوں۔ برٹش ریلوے بورڈ نے اس کے لئے فیس کا مطالبہ کردیا، جو راقم کے لئے ادا کرنا ممکن نہ تھا۔
ریلوے پلاننگ کی وقعت اور ترجیح اس امر سے ظاہر ہے کہ ریلوے میں گریڈ 21 کی متعدد پوسٹیں منظور کی گئیں لیکن کسی کو ریلوے بورڈ میں ممبر پلاننگ (گریڈ 21) کی پوسٹ create کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ اس کے برعکس جو گریڈ 21 کی پوسٹیں create کی گئیں اُن کا پس منظر کچھ اس طرح تھا ایک جنرل منیجر، جو اُس وقت کے وزیر ریلوے کے ڈارلنگ بنے ہوئے تھے، گریڈ 21 تو نہ پاسکے، اُن کو accommodate کرنے کے لئے ایک جنرل منیجر (development) کی پوسٹ تخلیق کی گئی۔ ریلوے کیرج فیکٹری ایک گریڈ 19 کے افسر کے تحت پوری استعداد پر 150 کوچز سالانہ بنارہی تھی اور سلےپر فیکٹریاں گریڈ 18 کے تحت خوش اسلوبی کے تحت اپنا کام سرانجام دے رہی تھیں۔ جب فنڈز کی کمی کے باعث یہ تقریباً بند ہونے کے قریب ہوگئیں تو گریڈ 21 کا ایک جنرل منیجر اُن کے اوپر مسلّط کردیا گیا۔ اسی طرح گریڈ 21 کا افسر لوکوموٹو فیکٹری کی تعمیر کے بعد بھی اُس کا سربراہ رہا۔ سیکرٹری ریلوے بورڈ ، جس کا کام بورڈ کی میٹنگز کو coordinate کرنا، میٹنگ کے minutes لکھنا اور اس کے علاوہ چےئرمین اور منسٹر کے احکامات بجا لانے والے فرائض ادا کرنا ہیں، کو بھی حال ہی میں اپ گریڈ کرکے گریڈ 21 دے دیا گیا ہے۔
حیرت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور وزارتِ خزانہ کس بناءپر ایک ادرے پر اتنی مہربانی فرمارہے ہیں جو قریب المرگ ہے؟ کیا اُن کو معلوم نہیں کہ اس طرح کے ہول سیل upgradation سے ادارے کو کتنا مالی بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے؟ اس ساری تمہید کا مقصد یہ تھا کہ پلاننگ کی کیا اہمیت ہے۔
راقم جب لندن سے ٹرانسپورٹ اور ڈویلپمنٹ کا پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ لے کر واپس آیا تو حکومتِ برطانیہ کی طرف سے ایک سینئر افسر ٹریننگ پروگرام کی evaluation کے لئے آیااور مجھ سے دوسرے سوالوں کے علاوہ یہ پوچھا کہ آیا (اضافی تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے) میری ترقی ہوئی ؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ اُس وقت کے چےئرمین ریلوے نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میری اُس افسر سے ملاقات ڈائریکٹر پلاننگ کی موجودگی میں ہوئی۔ یہ ڈائریکٹر پلاننگ پیشے کے اعتبار سے سول انجےنئر تھے۔ افسر ِ موصوف نے ڈائریکٹر پلاننگ سے پوچھا کہ آیا آپ نے پلاننگ کی ٹریننگ حاصل کی ہوئی ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ سول انجےنئر کو ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کام وہ اگرچہ سول انجےنئر کا کرتا ہے لیکن اس میں وہ پلاننگ ہی کررہا ہوتا ہے۔ اس لئے اُسے ٹریننگ کی کوئی ضروت نہیں ہوتی۔ سوائے چند سال کے، ریلوے پلاننگ کا سربراہ ایک ممبر ریلوے بورڈ ممبر سول انجےنئرنگ ہی ہوتا ہے۔ یہ صاحب 6 سال تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک ادارے میں ملازمت اختیار کی تو مجھے فون کیا اور پوچھا کہ financial cost اور economic cost میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس سوال سے آپ کو اُن کے پلاننگ کے علم کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔
ریلوے پلاننگ کی کیا stagesہوتی ہیں، اور یہ نظریاتی طور پر کس طرح انجام پاتا ہے؟ اس کی پہلی سٹیج ایک ایسا سروے کروانا ہوتاہے، جس میں ملکی سطح پر پیداوار (production) اور اس کے بعد فاضل مال برائے ٹرانسپورٹ (export surplus) کا علم حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس exercise کا مقصد ایسے اعداد و شمار حاصل کرنا ہوتا ہے، جس سے یہ معلوم ہو کہ کتنا فاضل مال نقل و حمل کے لئے موجود ہے۔ اس کے بعد مطلوبہ سال / سالوں کے لئے ٹریفک کا اندازہ (forecast) ، جوکہ آبادی میں تبدیلیوں (demographic changes) ، قومی آمدنی، درآمد اور برآمد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس ٹریفک کی تقسیم ٹرانسپورٹ کے مختلف شعبوں میں کی جائے۔ اس کو modal split کہتے ہیں۔ اس امر کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ کون سا شعبہ ٹرانسپورٹ کس قسم کی ٹریفک کے لئے موزوں ہے۔ مثلاً ماہرین کے خیال کے مطابق long lead اور bulk traffic ریلوے کے لئے موزوں ٹریفک ہے۔ مقصود یہ ہے کہ ٹریفک کو کم از کم لاگت (least cost) پر اُٹھایا جائے۔ اس کی مزید تفصیل ٹرانسپورٹ پالیسی کے باب میں آگے آئے گی۔
مختلف شعبوں میں ٹریفک کی تقسیم کے بعد اگلا مرحلہ پراجیکٹس کی تشخیص (identgification of project) ہے، یعنی مطلوبہ ٹریفک کو اُٹھانے کے لئے کتنی مشینری اور ساز و سامان (equipment)، از قسم انجن، مال، پسنجر ڈبے، سگنل، ٹیلی کمیونی کیشن، ٹریک وغیرہ کی ضرورت ہوگی (موجودہ ساز و سامان کا خیال رکھتے ہوئے اور دوران عرصہ منصوبہ بندی اور خستگی (depreciation) کا خیال رکھتے ہوئے)؟ پراجیکٹس کی تکمیل کے لئے افرادی قوت ، وسائل کی فراہمی، درآمدات کی صورت میں زرِ مبادلہ کا انتظام، فنڈز کو خرچ کرنے کی صلاحیت جیسے اُمور پیش نظر رکھنا ضروری ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ریلوے میں پلاننگ کا عمل کچھ اس طرح سے ہوتا ہے۔ ایک چےئرمین صاحب نے چارج سنبھالنے کے پہلے دن ہی فرمایا کہ ریلوے ٹریک کو ڈبل کرنے کا پروجیکٹ بنایا جائے۔ ایک دوسرے چےئرمین ڈبل ٹریک اس لئے چاہتے تھے کہ حکومت کی خواہش کو پورا کرسکیں اور اُنہیں گریڈ 22 مل سکے۔ جب ایک چےئرمین کو یہ تجویز پیش کی گئی کہ وہ تھرڈ کلاس کے ڈبوں میں cushioning کروائیں تو موصوف نے فرمایاکہ اس کی کیا ضرورت ہے۔ جبکہ زیادہ شکایتیں تو ایئرکنڈیشن کلاس کے مسافروں کی طرف سے آتی ہیں۔ موصوف کا مارکیٹنگ اور ریلوے سروس کی کوالٹی بہتر بنانے کا vision یہیں تک محدود تھا، اور یہ علم ہی نہیں تھا کہ ریلوے کے 90 فیصد مسافر تھرڈ / سیکنڈ کلاس میں سفر کرتے ہیں۔ قدرتی طور پر یہی کلاس ہی آمدنی کا اصل ذریعہ ہیں۔
پاکستان ریلوے میں پلاننگ کا سربراہ چیف پلاننگ اور پروجیکٹس اور بعض اوقات پروگریس آفیسر کہلاتا ہے۔ اس دفتر کا کام صرف رابطہ (coordination) تک محدود ہے۔ گویا ایک پوسٹ آفس کے طور پر کام کررہا ہے۔ راقم نے ریلوے کے خرچ کو بچانے کے لئے اس پوسٹ کے غیر اہم ہونے کی وجہ سے اس کو ختم کروادیا، لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس کو دوبارہ فنکشنل کردیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ اس آفس کو دوبارہ کسی مجاز اتھارٹی سے اجازت لئے بغیر شروع کردیا گیا۔ ریلوے سے جب بھی پنج سالہ منصوبہ کے لئے مواد مانگا گیا تو چیف پلاننگ آفیسر مختلف شعبوں سے حاصل کردہ پروجیکٹس کی ایک لسٹ وزارتِ ریلوے کو بھیج دیا کرتا۔ یہ بتائے بغیر کہ اس سے کتنے ٹن کلومیٹر اور پسنجر کلومیٹر حاصل ہوں گے اور اس کا ریلوے کی صحت پر کیا اثر پڑےگا؟(جاری ہے) ٭