دہشت گرد:خوارج یا بلیک واٹر
شیخ ابوالفضلؒ کا قول ہے کہ کسی بھی مملکت کا زوال تین باتوں پر موقوف ہے،1۔حکمران بے علم ہوں، 2۔ عالم بے عمل ہوں،3۔فقراء بے توکل ہوں۔۔۔ ہمارے مُلک کے حکمران عوامی مسائل اور ملکی ضروریات سے بے علم اپنے اثاثے بنانے میں مگن رہتے ہیں۔جو عالم ہیں، وہ ذاتیات کی سیاست میں ڈوبے ہوئے ہیں اور فقراء کا تصور اس دور میں مخدوش ہو کر رہ گیا ہے۔ دُنیا میں دہشت گردی کی مشترکہ تعریف صرف خوف پیدا کرنا ، ایک مذہبی، سیاسی اور نظریاتی مقصد کے لئے پرُ تشدد کارروائیوں کا ارتکاب کرنا اور جان بوجھ کر ہدف غیر مسلح، غیر جانبدار، فوجی اہلکاروں یا عام شہریوں کی حفاظت کو نظر انداز کرنا دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2003ء کے دہشت گرد حملوں میں 189ہلاکتیں ہوئیں، 2004ء میں863)) ۔ 2005ء میں ( 648 )۔ 2006ء میں ( 1471)۔ 2007ء میں ( 3598 ) ۔ 2008ء میں ( 6715 ) ۔ 2009ء میں ( 11704) ۔ 2010ء میں ( 7435 ) ۔ 2011 ء میں ( 6303 ) ۔ 2012ء میں ( 6211 ) ۔ 2013ء میں ( 5379 ) ۔ 2014ء میں ( 5496 ) ۔ اور 2015 ء میں ( 3095 ) کل تعداد ( 59107 ) یہ تمام ہلاکتیں عام شہری، سیکیورٹی اور خود کش افراد پر مشتمل ہیں ۔
21، دسمبر 2001ء سولجر بازار کراچی میں لیفٹیننٹ جنرل(ر) معین الدین حیدر کے بھائی احتشام الدین حیدر کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔7، مئی 2002ء کو پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی کو شہید کیا گیا، ان کے ساتھ ان کا ڈرائیور اور ایک سپاہی بھی شہید ہوا۔ 6، اکتوبر 2003ء کو مولانا اعظم طارق کو چار ساتھیوں سمیت گولی مار دی گئی۔ 30، مئی 2004ء میں جامعہ بنوریہ کے مفتی نظام الدین شامزئی کو گولی مار دی گئی اور جون10 ، میں ملٹری کانوائے پر کراچی میں فائرنگ کی گئی، کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم حیات بچ گئے، لیکن گیارہ دوسرے لوگ شہید ہو گئے۔ یہ آرمی پر پہلا حملہ تھا۔14، جولائی، 2006ء تحریکِ جعفریہ پاکستان کے سربراہ علامہ حسن ترابی کو ان کے بھتیجے کے ہمراہ خود کش حملے میں شہید کیا گیا۔
2007ء میں بڑی شخصیات پر خود کش حملے ہوئے، 20، فروری پنجاب منسٹر سو شل ویلفیئر ظلِ ہما عثمان کو گوجرانوالہ میں گولی مار دی گئی۔28، اپریل کو آفتاب شیر پاؤ پر خودکش حملہ ہوا۔ 18، اکتوبر کو بینظیر بھٹو کی ریلی پر خود کش حملہ ہوا۔ نومبر 9، امیر مقام وفاقی وزیر برائے سیاسی امور پر قاتلانہ حملہ ہوا۔21، دسمبر کو جامع مسجد پشاور میں وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ پر دوبارہ خودکش حملہ ہوا، جس میں57افراد شہید ہوئے۔ 22، دسمبر لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو پر فائرنگ اور خود کش حملہ ہوا جس میں وہ شہید ہوئیں ، بیس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ 28، دسمبر کو والی سوات کے نواسے اسفند یار امیر زیب سڑک پر نصب بم کے پھٹنے سے جاں بحق ہوئے۔12، اگست 2008 ء پاکستان ایئر فورس کی بس پر پشاور میں حملہ ہوا،جس میں13جوان شہید ہوئے۔ 21، کو واہ آرڈننس فیکٹری کے گیٹ پر خود کش دھماکہ ہوا، جس میں 70 لوگ ہلاک اور67 زخمی ہوئے۔ 2،اکتوبر کو اسفند یار ولی کے گھر ولی باغ چار سدہ میں خود کش حملہ ہوا جس میں وہ بچ گئے۔
11 نومبر کو قیوم سٹیڈیم میں بشیر بلور پر خود کش حملہ ہوا۔ دوسرا حملہ گیارہ مارچ کو ہوا۔11 ، فروری 2009 ء اے این پی کے عالم زیب خان موٹر سائیکل بم دھماکے میں ہلاک ہوے۔3، مارچ 2009ء سری لنکن کرکٹ ٹیم پر بارہ دہشت گردوں نے حملہ کیا سری لنکا کے چھ کھلاڑی ز خمی ہوے چھ پولیس والے اور دو شہری شہید ہوئے۔ 9،فروری ، 2010ء شیخ رشید پر قاتلانہ حملہ ہوا ان کے تین سیکیورٹی گارڈ ہلاک ہوئے،وہ خود بچ گئے۔یکم جولائی کو داتا دربار میں دو خود کش دھماکے ہوئے،42 ہلاکتیں اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔7،دسمبر بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی پر خود کش حملہ ہوا۔24 ، جولائی اے این پی کے میاں افتخار کے بیٹے کو گولی مار کر شہید کیا گیا۔ 31، مارچ 2011ء مولانا فضل الرحمن پر صوابی میں خود کش حملہ ہوا۔دوسرا حملہ یکم اپریل کو چار سدہ میں ہوا۔
14، ستمبر ، 2011ء کراچی میں ایس ایس پی چودھری اسلم خان پر خود کش حملہ کر کے شہید کیا گیا۔ 16،اگست، 2012ء کامرہ ائیر بیس اٹک پر حملہ ہوا۔ 15، جون ، 2013ء کوئٹہ میں قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ ہوا ۔ 15، ستمبر ، میجر جنرل ثناء اللہ نیازی انچارج ملٹری آپریشن سوات کو اپر دیر افغان بارڈر کے نزدیک بم حملے میں شہیدکیا گیا۔ 8، جون ، 2014ء کراچی جناح انٹر نیشنل ایئر پورٹ کو رات کے وقت دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ 6، ستمبر پاکستان نیوی کے پی این ایس ذوالفقار پر القاعدہ کے دہشت گردوں نے قبضہ کرنے کی کو شش کی۔ ارادہ تھا ذوالفقار کے اینٹی میزائل سسٹم سے بحرۂ عرب میں موجود یو ایس نیوی کی فلیٹ کو نشانہ بنانا۔ 16، دسمبر ، 2014ء پشاور آرمی سکول پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا جس میں ، 132 بچے شہید ہوئے کل 141, شہادتیں ہوئیں۔13، مئی ، 2015 ء سانحہ صفورہ گوٹھ رونما ہوا ، جس میں 46 ہلاکتیں ہوئیں۔
دہشت گردی میں ملوث تنظیمیں حملہ کرنے کے بعد بڑی دیدہ دلیری سے ذمہ داری قبول کرتی اور اسے عین اسلامی و شرعی قرار دیتی ہیں۔ اسلام میں ایسے لوگوں کو ’خوارج ‘ کہا گیا ، یعنی اسلام سے خارج کئے گئے لوگ۔۔۔آپ ؐ نے فرمایا یہ مشرق سے نکلیں گے اور یہ اونچا تہہ بند باندھنے والے ہوں گے، ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا ۔۔۔ صحیح بخاری۔ خوارج کردار کے لحاظ سے بڑے ظالم ، خونخوار اور گھناؤ نے لوگ ہوں گے۔۔۔ ابو داؤد،السنن۔یہ دہشت گرد خوارج جہنم کے کُتے ہوں گے۔۔۔ ترمذی، السنن ۔ دماغی طور پر ناپختہ ہوں گے۔۔۔ مسلم ۔وہ بذریعہ طاقت لوگوں کو کتاب اللہ کی طرف بلائیں گے، لیکن قرآن کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا،ابو داؤد۔ السنن۔ وہ کمسن ہوں گے اور کفار کے حق میں نازل آیاتِ قرآنی کا اطلاق مسلمانوں پرکریں گے، اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں۔۔۔ بخاری۔
امریکی صحافی وائن میڈسن کے مطابق پاکستان میں دہشت گردانہ حملے بلیک واٹر کر رہی ہے اور ان دہشت گرد حملوں کو امریکی تنخواہ دار گروپس طالبان کے نام سے وصول کرتے ہیں۔ کیا اس بات سے ہمارے حکمران بے علم ہیں ؟کیا پرویز مشرف اور آصف علی زرداری دورِ حکومت میں بلیک واٹر کو لا تعداد ویزوں کا اجراء نہیں ہوا ؟ اگر حکمران ان سب باتوں سے واقف ہیں تو عمل کیوں نہیں ہوتا ؟ ہم اور کتنے بچوں کو قربان کریں، کتنے جوان شہید کریں، کتنی بیٹیوں کو بیوہ کریں، شاید حکمران طبقے کو اندازہ نہیں کہ ہم نے دہشت گردوں سے آنکھیں موند کر کیا کچھ نہیں کھویا۔