دماغی امراض قابل علاج،مریض مایوسی کا شکار نہ ہوں،ماہرین
لاہور(جنرل رپورٹر) پاکستا ن میں دماغی امراض میں مبتلا افراد درست اور موزوں علاج کی تلاش نہیں کرتے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کبھی ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکیں گے ان خیالات کا اظہار ماہرین نے دماغی امراض کے عالمی دن کے حوالے سے سٹیزن ہیلتھ انیشیٹو(CHI)کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہی گئی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ملک میں آج بھی مرگی کے بارے میں بہت سی توہمات پائی جاتی ہیں ، رعشہ کی بیماری کو عمر کی زیادتی کا اثر سمجھا جاتا ہے جبکہ ڈپریشن کی بیماری ہونے کی صورت میں ادویات نہیں لی جاتیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ ادویات اپنا عادی بنالیں گی اور ساری زندگی لینی پڑیں گی حالانکہ دماغی امراض قابل علاج ہیں اور پاکستان میں ان کا بہترین علاج کیا جاتا ہے ۔جناح ہسپتال کے شعبہ طب نفسیات اور علوم رویہ جات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا کہ دماغی واعصابی بیماریوں میں مرگی دوسری بڑی اورعام بیماری ہے جس میں مریض کو دورے پڑتے اور جھٹکے لگتے ہیں ۔دنیا بھر میں اس کے مریضوں کی تعداد 5کروڑ ہے جن میں سے 50لاکھ ایسے ہیں جنہیں مہینے میں مرگی کے کئی دورے پڑتے ہیں ۔پوری زندگی میں مرگی ہونے کی شرح 2سے4فیصد ہے جبکہ زندگی بھر میں ایک دورہ پڑ سکنے کی شرح 8فیصد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مرگی بچوں اور بوڑھوں میں زیادہ ہوتی ہے ۔اس کے علاج کے لئے مریضوں کی ایک بڑی تعداد کو لمبے عرصے تک ادویات لینی پڑتی ہیں ۔اس دوران دیکھا جاتا ہے کہ مریضوں کو کتنے دورے پڑ تے ہیں ان کا دورانیہ کتنا ہوتا ہے وہ کس حد تک اسے برداشت کر سکتے ہیں ایک مریض کے لئے عموماً ایک گولی کافی ہوتی ہے لیکن کیفیت دیکھتے ہوئے مختلف ادویات بھی دی جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ رعشہ کی بیماری سینٹرل نروس سسٹم میں خلل کے باعث ہوتی ہے جو موٹر سسٹم کو متاثر کرتا ہے ۔اس کی علامات میں جسم پر کپکپی اور لرزش طاری ہونا ، جسم اکڑنا ،اعضاء کی بے انتہا سست حرکت اور وضعی ناپائیداری شامل ہیں ۔