پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفو٭۔۔۔ امریکہ کا پھر اعتراف
امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی سلامتی کے متعلق کوئی شبہ نہیں یہ بالکل محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور دہشت گردوں کے ہاتھ نہیں لگ سکتے، کشمیر کے متعلق ہمارا موقف بالکل تبدیل نہیں ہوا اور امریکہ چاہتا ہے پاکستان اور بھارت تناؤ ختم کر کے بامعنی مذاکرات کریں۔ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کو براہِ راست مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہو گا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے واشنگٹن میں ایک بریفنگ میں بتایا کہ خطے میں دہشت گردی تمام ممالک کے لئے مشترکہ خطرہ ہے اور ہم اِس کے لئے پاکستان، افغانستان اور خطے کی دوسری حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے تاکہ ان مشترکہ خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔انہوں نے کہا پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے، امریکہ پہلے بھی کہتا رہا ہے اور اب بھی کہتا ہے کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں ہونے چاہئیں، ان کے خلاف امریکہ اپنا تعاون جاری رکھے گا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف پروپیگنڈہ کئی عشروں سے جاری ہے، جب ایٹمی پروگرام ابھی ابتدائی مراحل ہی میں تھا، تو ’’اِسلامی بم‘‘ کا پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا، جُوں جُوں یہ پروگرام آگے بڑھتا رہا، اِس کی مخالفت کے زاویئے اور پہلو بدلتے رہے اور پروگرام کے مخالف اِس پر ہر جانب سے حملہ آور ہوتے رہے یہاں تک کہ پاکستان نے پروگرام کو انجام تک پہنچا دیا اور یہ صلاحیت حاصل کر لی کہ کسی بھی وقت ایٹمی دھماکہ کر سکے تاہم پاکستان نے اِس سلسلے میں پہل نہیں کی، یہاں تک کہ بھارت نے1998ء میں ایٹمی دھماکہ کر دیا۔ دُنیا بھارت کو تو اِس سے باز نہ رکھ سکی۔البتہ اِس کے بعد پاکستان پر بھرپور دباؤ ڈالا جانے لگا کہ پاکستان جوابی دھماکہ نہ کرے، لیکن اِس دوران بھارتی حکومت پاکستان کو جس قسم کی دھمکیوں پر اُتر آئی تھی، اس کا جواب دھماکوں سے ہی دیا جا سکتا تھا، چنانچہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے دُنیا بھر کی مخالفت کے باوجود دھماکوں کا فیصلہ کیا اور چاغی میں یہ دھماکے کر دیئے۔
دھماکوں کے بعد میزائل پروگرام شروع ہوا، تو پھر پاکستان کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا آغاز کر دیا گیا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ نہیں ہیں اور یہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں،حالانکہ اِس سلسلے میں عالمی ادارے بھی بار بار یہ بیان جاری کر چکے ہیں اور خود امریکہ بھی متعدد بار کہہ چکا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں اور ان کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا کوئی امکان نہیں، اس کے باوجود ہر ہفتے دو ہفتے بعد کہیں نہ کہیں سے ایسے شگوفے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ واشنگٹن میں بھارتی لابی اِس سلسلے میں کانگرس کے ارکان کے کان بھی بھرتی رہتی ہے اور دفتر خارجہ کے ترجمان کی بریفنگ کے دوران بھی ’’لوڈڈ سوالات‘‘ کئے جاتے ہیں، امریکی حکومت کے وقتاً فوقتاً آنے والے نئے پرانے ترجمان بار بار اِس امر کا اعلان کر چکے ہیں،لیکن بھارتی لابی منفی پروپیگنڈے سے باز نہیں آتی۔
اب بھارتی لابی نے ایک اور شرارت کی کہ ایک ’’آن لائن درخواست‘‘ دائر کرا دی کہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے۔ اِس سلسلے میں جب جان کربی سے سوال کیا گیا تو انہوں نے ایسی کسی درخواست سے تو لاعلمی ظاہر کی۔ البتہ یہ کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے اور امریکہ بھی اِس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان سے مل کر کام کر رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف تو پاکستان نے جتنا کام کیا ہے اتنا دُنیا کے کسی دوسرے مُلک نے نہیں کیا،اِس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں بھی پاکستان نے دی ہیں اور پاکستان کی معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ جانی اور مالی قربانیوں کا ریکارڈ گواہ ہے کہ پاکستان نے اِس سلسلے میں بلاتفریق کارروائی کی ہے۔ البتہ افغانستان کی حکومت اِس سلسلے میں بھارتی زبان بولتی رہتی ہے اور بھارتی موقف کو ہی آگے بڑھایا جاتا ہے،حالانکہ برسلز کی حالیہ کانفرنس میں بھی پاکستان نے افغانستان کے لئے نہ صرف50کروڑ ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے،بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ افغانستان میں امن خطے کے لئے مفید ہے اور پاکستان اِس کے لئے کام کرتا رہے گا۔ افغان حکومت نے مجاہد کمانڈر گلبدین حکمت یار کے ساتھ معاہدہ کر کے ایک اچھا اقدام کیا ہے اور اس کے نتائج امن کے حق میں مثبت نکل سکتے ہیں اگر ایسے ہی معاہدے دوسرے بااثر طالبان گروپوں کے ساتھ کر لئے جائیں ،تو افغانستان میں قیام امن میں مدد مل سکتی ہے۔
خطے میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر قابو پانے کے لئے پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے اسے دُنیا بھر میں تسلیم کیا گیا ہے اور امریکہ بھی اسے تسلیم کرتا ہے،لیکن بھارت کی حکومت نے خطے میں عدم استحکام کے لئے نہ صرف افغانستان کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراکسی وار شروع کر رکھی ہے، بلکہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر بھی جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں اور سرجیکل سٹرائیک کے ڈرامے رچا کر جنگ کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان اور بھارت کو یہ مشورہ تو دیا جاتا ہے کہ وہ مذاکرات کریں،لیکن بھارت مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوتا اور مذاکرات کی دعوت کو ہمیشہ مسترد کرتا رہتا ہے ایسے میں امریکہ کا یہ کہنا کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کریں اصولی طور پر تو درست ہے، لیکن عملی طور پر اس کا دور دور تک امکان نظر نہیں آتا، امریکہ کو اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہئے۔ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ مودی کی حکومت کے دور میں پاک بھارت تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔
سرتاج عزیز کے اِس بیان سے اگرچہ ناامیدی جھلکتی ہے تاہم امر واقعہ یہی ہے کہ مودی نے خطے میں جو حالات پیدا کر دیئے ہیں، جس طرح جنگی جنون کو ہَوا دی ہے اور جس انداز میں بھارت کے اندر انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے، فنکاروں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور پاکستانی آرٹسٹوں کو اپنی فلموں میں کاسٹ کرنے والے فلم سازوں اور فلم ڈائریکٹروں کو جس انداز میں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور جس طرح سرحدوں پر کشیدگی کا ماحول پیدا کر کے بنکرز تعمیر کرکے دیہات خالی کرائے جا رہے ہیں اس سے نہیں لگتا کہ مودی کا پاکستان سے مذاکرات کا کوئی ارادہ ہے۔ اِن حالات میں امریکی توقع تو پوری ہوتی نظر نہیں آتی تاہم یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ کشمیر کا تنازعہ جنگ سے نہیں، بات چیت سے ہی حل ہو گا اِس لئے بہتر یہی ہے کہ بھارت دُنیا کی آواز سنے، جنگی جنون کو خیر باد کہے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے۔