پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد : کشمیریوں سے یکجہتی کا اعادہ
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ قرارداد کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے بہیمانہ مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے آزادی کا مطالبہ کرنے والے مظلوم کشمیریوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے۔ متفقہ قرارداد میں تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کے مطابق حل کرانے پر زور دیتے ہوئے بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کو اٹوٹ انگ کے دعوے کو مسترد کردیا گیا جبکہ اڑی حملے میں پاکستان کو ملوث کرنے اور سرجیکل سٹرائیک کے ڈرامے کو مضحکہ خیز قراردیا گیا ہے۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کی مذمت کی گئی اور بھارتی حکومت کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے پاک فوج کے پختہ اوربھرپور عزم کی تعریف کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ کسی بھی قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ قرارداد مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے پیش کی۔ انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار کے منفی اور عدم تعاون کے رویے کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات بہتر نہیں ہوسکے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے مظالم کی انتہا کردی ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ان بہیمانہ مظالم کا نوٹس لے کر تنازعہ کشمیر کو جلد حل کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ قرارداد میں بھارت کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے۔
نہتے اور مظلوم کشمیریوں کی تحریک آزادی کی سفارتی اور اخلاقی سطح پر بھرپور حمایت اور مقبوضہ کشمیر میں دی جانے والی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کے لئے پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد سے پوری دنیا کو پیغام دیا گیا ہے۔ یہ بھرپور پیغام پاکستانی قوم کی امنگوں کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ متفقہ قرارداد بلاشبہ تاریخی اہمیت کی حامل قراردی جاسکتی ہے کہ اس قرا رداد میں تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے بھارت کا اصل چہرہ اقوام عالم کے سامنے اجاگر کیا گیا ہے۔ تنازعہ کشمیر کو بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو خود اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر لے کر گئے تھے وہاں انہوں نے عالمی برادری سے یہ وعدہ کیا کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے گا تاکہ وہ اپنے مستقبل کا بہتر فیصلہ کرلیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ بھارتی حکمرانوں نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کی بجائے مقبوضہ کشمیر کو اپنے ظالم فوجیوں کے حوالے کردیا۔ سات لاکھ بھارتی فوجی وہاں آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے کے لئے کئی دہائیوں سے مظالم کی انتہا کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت سے باز رکھنے کے لئے بھارت سازشیں کرتا رہتا ہے۔بلوچستان میں مداخلت بھی اِسی لئے کر رہا ہے، حالانکہ پاکستان نے اس مسئلہ کو تیسرے فریق کی حیثیت سے بھارت پر ہمیشہ مذاکرات کے ذریعے حل کرانے پر زور دیا ہے۔ گزشتہ تین ماہ سے کرفیو کے باوجود کشمیریوں کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت سے آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کی جدوجہد اور قربانیوں سے آگاہ کرنے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا۔ عالمی سطح پر سفارتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کے لئے پہلے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا، بعدازاں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر متفقہ قرارداد بھی منظور کی گئی ہے۔
متفقہ قرار داد پوری پاکستانی قوم کی امنگوں کی ترجمان ہے، جس میں کشمیریوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرنے والی تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ جس کا بظاہر جواز نہیں تھا۔اس موقع پر ایجی ٹیشن کی سیاست ویسے بھی نہیں ہونی چاہئے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف اور سی پیک کی تکمیل کے حوالے سے مکمل اتحاد کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ازلی دشمن بھارت کے ناپاک عزائم کی مذمت اور مظلوم کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کے معاملے میں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اپوزیشن کے مطالبے پر بلایا گیا تھا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ایک سے زائد مرتبہ بائیکاٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کے لئے کہا، مگر وہ نہیں مانے اور اس تاریخی موقع پر اپنی جماعت کی نمائندگی نہ کر کے انہوں نے گھاٹے کا سودا کیا۔ یہ متفقہ قرارداد موجودہ حالات میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔