’’میں انتقاماً پانی بہاتا ہوں‘‘
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے‘ میں اپنے ایک دوست کے گھر گیا۔ اتوار کا دن تھا اور دن کے گیارہ بج جانے کے باوجود وہ بیدار نہیں ہوا تھا۔ خیر اس کے گھر والوں نے اسے جگایا ۔ اس نے میرے لئے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولا اور میں وہاں بیٹھ گیا۔ اس ڈرائنگ روم کا ایک دروازہ اور ایک بڑی کھڑکی صحن کی طرف تھے جہاں ان کاواحد واش روم تھا ‘ جس کے باہر شیو وغیرہ کے لئے ایک واش بیسن لگایا گیا تھا۔ ساتھ ہی دیوار پر ایک آئینہ آویزاں تھا۔
دوست نے مجھے کہا کہ آپ بیٹھو‘ میں ذرا فریش ہو کے آتا ہوں۔ میرے لئے چائے بسکٹ آ گئے۔ میں وہ کھانے لگا اور موصوف نہانے چلے گئے۔ واش روم ڈرائنگ روم سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا‘ چنانچہ میں اپنے دوست کے نہانے کے دوران مسلسل پانی بہنے کی آواز سنتا رہا۔ پندرہ بیس منٹ میں اس نے ایک سیکنڈ کے لئے بھی نل کا پانی بند نہیں کیا تھا۔ نہا کر باہر آیا تو صحن میں لگے واش بیسن پر شیو بنانے لگا اور اس دوران بھی اس نے نل مسلسل کھلی رکھی۔مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں ڈرائنگ روم سے اٹھا اور صحن میں اس کے پاس جا کر کہا’’ اللہ کے بندے تم آدھے گھنٹے سے مسلسل پانی بہائے چلے جا رہے ہو‘ کیا یہ مناسب ہے؟‘‘ اس نے جو جواب دیا، میری توقع کے بالکل برخلاف تھا۔
کہا’’ ہم نیچے والے پورشن میں کرائے پر رہتے ہیں۔ اوپر مالک مکان خود رہتا ہے۔ تین کمروں‘ کچن اور باتھ کے بیس ہزار روپے لیتا ہے۔ ٹھیک ہے پانی کرائے میں شامل ہے‘ لیکن ہم بجلی کا بل تو آدھا دیتے ہیں۔ ان کے پاس دو باتھ روم ہیں‘ ہمارے پاس ایک۔ وہ دو اے سی چلاتا ہے‘ ہم صرف ایک سے گزارہ کرتے ہیں۔ ان کے اوپر والے تینوں کمروں میں ٹی وی سیٹ لگے ہیں‘ ہم صرف ایک چلاتے ہیں۔ اب معاملہ کہیں تو برابر کرنا ہے‘ سو میں انتقاماً پانی بہاتا ہوں‘ بجلی زیادہ خرچ کرتا ہوں تاکہ مالک مکان ہم پر جو ظلم کر رہا ہے‘ اس کا کچھ تو بدلہ لیا جا سکے‘‘
میں نے جواباً کہا’’ یہ تم مالک مکان سے انتقام نہیں لے رہے بلکہ اپنے آپ پر ظلم اور اس میں ممکنہ طور پر آنے والی نسلوں کے ساتھ زیادتی کر رہے ہو‘‘
حیران ہوا’’ وہ کیسے؟‘‘
میں نے کہا’’ تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں زیر زمین پانی کی جو ایک تہہ قدرتی طور پر موجود ہے‘ سکڑتی جا رہی ہے۔ ہم نہاتے ہوئے اور شیو کرتے ہوئے پانی بند نہیں کرتے۔ میں سڑکوں پر روزانہ چھڑکاؤ ہوتے دیکھتا ہوں۔ پینے کے لائق صاف اور قیمتی پانی سے روزانہ پتا نہیں کتنے ہزار یا کتنے لاکھ گاڑیاں دھوئی جاتی ہیں اور یہ پانی سڑکوں پر بہایا جاتا ہے۔ اس سے پانی کا ضیاع تو ہوتا ہی ہے‘ سڑکوں کی بھی بربادی ہوتی ہے۔ اگر پانی اسی طرح بہایا جاتا رہا توخدانخواستہ ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ ہم برتن لے کر پانی کی تلاش میں پھریں گے اور یہ نعمت دستیاب نہ ہو سکے گی‘‘میں نے یہ بھی کہا’’ چلیں ہم تو اپنی زندگی گزار کر چلے جائیں گے‘ لیکن آنے والی نسلوں کے لئے تو ایک عذاب چھوڑ جائیں گے‘ کیونکہ ان کے حصے کا پانی بھی ہم بہا چکے ہوں گے‘‘میری ان باتوں کا اس پر خاطر خواہ اثر ہوا اور اگلی بار جب میں ان کے گھر گیا تو نہ تو واش رو م سے پانی مسلسل بہنے کی آواز آئی اور نہ ہی اس نے باہر لگے واش بیسن کے نل کی ٹونٹی مسلسل کھلی رکھی۔
یہ ایک سچا واقعہ ہے‘ جو میں نے بیان کیا اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارا شمار ان اقوام میں ہوتا ہے‘ جو پانی کا بڑا کھلا ڈلا بلکہ بے دریغ استعمال کرتی ہیں اور اس بات سے بالکل غافل ہیں کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔اگر محسوس کیا جائے تو اس انجام کے آثار نظر آنا شروع ہو رہے ہیں۔مجھے پاکستان کا کوئی ایک شہر بتا دیں‘ جہاں صاف اور قابل استعمال پانی وافر دستیاب ہو۔ کراچی‘ لاہور‘ راولپنڈی‘ گوجرانوالہ‘ فیصل آباد‘ حیدر آباد‘ لاڑکانہ‘ ٹھٹہ‘ بدین‘ کوئٹہ؟ کوئی ایک شہر؟ کوئی ایک علاقہ؟ جواب نفی میں ملے گا اورپہلی وجہ یہ ہے کہ ایک تو پانی وافر دستیاب نہیں اور دوسری یہ کہ جو پانی دستیاب ہے‘ ہم اس کا اندھا دھند استعمال کر رہے ہیں۔ اسے عاقبت نااندیشی کہتے ہیں۔ احساسِ زیاں کا جاتا رہنا۔ اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1947میں آزادی کے بعد ہمارے ملک میں ہر فرد کے لئے 5300کیوبک میٹر سالانہ پانی دستیاب تھا‘ جو آج 2017میں 1000کیوبک میٹر سے بھی کم ہو چکا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اگر ہم ہوش کے ناخن نہیں لیں گے تو یہ شرح اور نیچے آ جائے گی۔ نہانا دھونا تو دور کی بات‘ ہمیں پینے کے لئے بھی پانی دستیاب نہیں ہو سکے گا۔ اب یہ ہم پر ہے کہ شتر مرغ کی طرح سر پروں میں چھپا لیں یا کھلی آنکھوں سے زمینی حقائق کا جائزہ لے کر درپیش چیلنج سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کریں۔ کچھ احتیاط سے کام لیں۔
یہ بات اکثر بڑے تفاخر کے ساتھ بیان کی جاتی ہے کہ پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری نظام ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں زیر زمین پانی کے وسیع ذخائر سے فیض یاب کیا ہے‘ لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ہم قدرت کی اس بیش قدر نعمت کو کس بے دردی بلکہ بے رحمی سے استعمال کر رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے ان ذخائر کے بہت جلد معدوم ہو جانے کا اندیشہ سر اٹھا رہا ہے۔ یو این ڈی پی (یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام) کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوں تو جنوبی ایشیا کے تمام ممالک ہی پانی کی قلت کے مسئلے سے دوچار ہیں اور اس کے حل کی کوششوں میں مصروف ہیں‘ لیکن پاکستان میں یہ مسئلہ شدید تر ہے جبکہ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے خبر دار کیا ہے کہ اگر ملک میں پانی کی قلت دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو 2025تک یعنی اگلے آٹھ برسوں میں پورا ملک آبی قحط کا شکار ہو جائے گا۔
میرے خیال میں پانی کے بے دریغ استعمال کی کئی وجوہ ہیں۔ پہلی، بچوں کو یہ سکھایا ہی نہیں جاتا کہ پانی کا مناسب طریقے سے استعمال کیسے کرنا ہے۔ مجھے بتائیں کہ آج تک کسی جماعت کی نصاب کی کسی کتاب میں یہ سکھانے کے لئے کوئی مواد شامل کیا گیا کہ پانی کیسے استعمال کرنا ہے اور اس کی بچت کیسے کرنی ہے تاکہ یہ زیادہ سے زیاہ لوگوں کو دستیاب ہو سکے؟۔یہی صورتحال بجلی کی بچت کی بھی ہے۔ دوسری، کسی حکومت نے پانی کی بچت یقینی بنانے کے لئے کوئی پروگرام مرتب نہیں کیا‘ نہ ہی پانی کے وسائل بڑھانے کے لئے کوئی اقدام کیا گیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ ایشو کسی حکومت کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ معاملہ گمبھیر صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور اور کچھ دوسرے بڑے شہروں میں لوگ نہانے اور طہارت کے لئے وہ پانی استعمال کرتے ہیں جو تھر کے عوام کو پینے کے لئے بھی دستیاب نہیں۔تیسری، سیاست کی وجہ سے وہ منصوبے بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتے‘ جو حکومتی سطح پر تیار کئے جاتے ہیں۔ کوئی جاگیر دار اپنے علاقے میں نہر نہیں بننے دیتا اور کوئی دوسروں کے حصے کا پانی بھی استعمال کر جاتا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی سیاست کے ہی شاخسانے ہیں کہ تربیلا اور منگلا کے بعد ملک میں کوئی بڑا ڈیم ہی نہیں بنایا جا سکا اور کالا باغ ڈیم جیسا قیمتی آبی ذخیرہ بننے ہی نہیں دیا گیا‘ جو اگر بن جاتا تو یقینی طور پر پاکستان میں پانی کی قلت کا بحران اس قدر شدت اختیار نہ کرتا‘ جتنا یہ اس وقت کر چکا ہے‘ نہ ہی ملکی زراعت کے لئے پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا۔ دریاؤں میں پانی کی قلت کا ہی نتیجہ ہے کہ ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیر زمین پانی نکال کر آب پاشی کی جاتی ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح گرنے کی ایک وجہ یہ آب پاشی بھی ہے۔ چوتھی: کرپشن اور کمیشن پاکستان میں پانی کے منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جو منصوبہ بنتا ہے اس میں پہلے سائن سے آخری سائن تک (ہائیر اتھارٹی کے دستخطوں سے مزدور کو معاوضہ دینے کے لئے حاصل کئے جانے والے دستخطوں تک)رشوت اور کمیشن کا ایسا سلسلہ ہے کہ اصل منصوبے کے لئے کچھ بچتا ہی نہیں۔ *
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔