بالا آخر آئی ایم ایف کے در دولت پر حاضری دینے کا فیصلہ کرلیا گیا
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
حکومت نے بالآخر آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کر ہی لیا، بار بار کی تردیدوں کے باوجود اہل نظر تو دیکھ ہی رہے تھے کہ حکومت آج نہیں تو کل آئی ایم ایف کے پاس جائے گی کیونکہ بظاہر کوئی دوسرا چارہ کار نہیں تھا، لیکن جونہی حکومت کے سامنے اس کا نام آتا وہ شرما لجا جاتی اور شرمندہ شرمندہ ہوکر کہا جاتا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا ارادہ تو نہیں ہے لیکن اگر گئے تو کیا یہ پہلی مرتبہ ہوگا۔ اب اتنی بجھارتیں اور پہیلیاں بجھانے کے بعد آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے کا فیصلہ کر ہی لیا گیا۔ فارسی دانشور نے ٹھیک کہا تھا،’’آنچہ دانا کند، کند ناداں و لیک بعد از خرابی بسیار‘‘ حکومت چوروں اور ڈاکوؤں کو پکڑنے کا اعلان کرتے کرتے سٹاک ایکسچینج کا بھٹہ بٹھانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ جب یہ اعلانات ہوں گے کہ 50 مزید بڑے ڈاکو گرفتار کئے جائیں گے تو کوئی احمق ہی سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ لگائے گا کہ کیا پتہ کل کس چور کر پکڑ لیا جائے۔ ایک لطیفہ حسب حال ہے کہ ایک بیل بھاگے جا رہا تھا، اس کے ساتھ ایک خرگوش بھی ہولیا، کسی نے کہا بیل تو اس لئے بھاگ رہا ہے کہ بیلوں کو بیگار میں پکڑا جا رہا ہے، خرگوش میاں تم کیوں بھاگ رہے ہو، خرگوش نے جواب دیا بیگار والے پکڑتے پہلے ہیں اور دیکھتے بعد میں ہیں کہ بیل کون ہے اور خرگوش کون ہے۔ جب یہ اعلان کیا جائے گا کہ شہباز شریف کی رہائی کے لئے احتجاج کرنے والوں کو بھی پکڑا جائے گا تو پھر سٹاک ایکسچینج میں پاگلوں نے ہی سرمایہ کاری کرنی تھی، اگر ایسے ہی اعلانات اور ایسی ہی تقریریں ہوتی رہیں اور پریس کانفرنس اور عوامی جلسے کی تقریر کا فرق ہی مٹا دیا گیا تو پھر بہت کچھ سننے اور دیکھنے کو ملے گا۔ کئی دن سے سیاستدان احتجاج کر رہے ہیں کہ مہنگائی کے سونامی نے لوگوں کے ہوش اڑا دئیے ہیں اور اس میں بہت کچھ بہہ جائے گا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے تو آج بھی کہا ہے کہ بجلی، گیس وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کے کہنے پر کیا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف نے اس اضافے کی تائید کرتے ہوئے مزید اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔ اب دیکھیں آئی ایم ایف کے در کے سوالی اس کا اور کون کون سا مطالبہ پورا کرتے ہیں۔ عجیب لطیفہ ہے کہ لوگ موجودہ مہنگائی سے بلبلا اٹھے ہیں اور مژدہ یہ سنایا جا رہا ہے کہ ابھی ایک سال تک مزید مہنگائی ہوگی، اب ایسی خوشخبریوں کو سننے والے یہ شعر پڑھنے پر مجبور ہیں۔
کیوں بلند کرتے ہو ظلم کی دیواروں کو
ان میں بند قیدی تو کب کے چل بسے ہوں گے
عوام الناس کو گورنر ہاؤسز کے باہر قطاروں میں کھڑا کرکے ان کا دل بہلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ گورنر ہاؤس کو آرٹ گیلری بنا دیا جائے گا، حالانکہ لاہور کے گورنر ہاؤس اور الحمرا کلچرل کمپلیکس کے درمیان صرف ایک سڑک حائل ہے، جس کسی نے ثقافتی تقریبات یا آرٹ کی نمائش دیکھنی ہے، وہ گورنر ہاؤس کی بجائے الحمرا کیوں نہ جائے، لیکن محسوس ایسے ہوتا ہے کہ کسی پروگرام کے بغیر محض عوامی توجہ مہنگائی سے ہٹانے کے لئے اس طرح کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں، لیکن روٹی دس روپے میں فروخت ہوگی تو لوگوں کا دل ایسے میلوں ٹھیلوں سے کب تک بہلے گا۔ اس سیلاب کے آگے بند باندھنا ہوگا، ورنہ یہ بہت کچھ بہا لے جائے گا۔ وزیر خزانہ اسد عمر کا آج ہی کے اخبارات میں ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، ابھی اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی کہ آئی ایم ایف کے در دولت پر حاضری دے دی گئی۔
طے شدہ طریق کار کے مطابق اب سرکاری دانشور اور حکومت کے نفس ناطقہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے ’’فضائل‘‘ بیان کرنا شروع کر دیں گے اور قوم کو طفل تسلیاں دیں گے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے اس طرح کے ’’بولڈ فیصلے‘‘ ضروری ہیں۔ اگر قوم نے آج مہنگائی کا تلخ گھونٹ جام شیریں سمجھ کر پی لیا تو کل اس کے بہت اچھے نتائج نکلیں گے، لیکن اب یہ بات کوئی راز نہیں رہ گئی کہ تبدیلی کے دعویداروں کے پاس نہ تو کوئی پالیسی ہے اور نہ کوئی ٹھوس منصوبہ، ایک کروڑ ملازمتوں کا جو لالی پاپ دیا گیا ہے، اس کا محل بھی دھڑام سے اس وقت گر پڑے گا جب معلوم ہوگا کہ مہنگی بجلی اور مہنگی گیس کی وجہ سے کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ ایسے میں جب پہلے سے برسر روزگار لوگ بے کار ہو رہے ہوں گے، جس کا آغاز کسی نہ کسی طرح ہوچکا ہے۔ نیوز پرنٹ کی گرانی اور اشتہارات میں کمی کے باعث نیوز پیپر انڈسٹری میں اس کا ایک ٹریلر چل چکا ہے۔ اب جب ڈالر کی مہنگائی سے پورا اقتصادی شعبہ متاثر ہوگا تو لوگوں کو ملازمتوں کے لالے پڑ جائیں گے۔ ایسے میں سادہ لوح لوگ ہی ایک کروڑ نوکریوں کے نعرے سے بہل سکیں گے۔ حکومت سرکاری شعبے میں کتنے لوگوں کو نوکریاں دے سکتی ہے، وہاں تو پہلے ہی جو لوگ کھپے ہوئے ہیں، وہی اپنی ملازمتوں کی مدت پوری کرلیں تو غنیمت ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق کھلی مارکیٹ میں ڈالر 129 روپے 30 پیسے کا ہوگیا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے 700 ارب روپے ڈوب گئے ہیں اور سٹاک مارکیٹ چار ہزار پوائنٹس نیچے آگئی ہے، اس ماحول میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ اگرچہ درست ہے، تاہم یہ ایک سخت پروگرام ہوگا اور آئی ایم ایف بہت سی اصلاحات کا مطالبہ کرے گا، لیکن کیا حرج تھا اگر تردیدوں سے دل بہلانے کی بجائے پہلے ہی ایسا فیصلہ کرلیا جاتا۔