بڑے سیاستدانوں کی اولاد کیا کرنے جا رہی ہے؟

بڑے سیاستدانوں کی اولاد کیا کرنے جا رہی ہے؟
بڑے سیاستدانوں کی اولاد کیا کرنے جا رہی ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اب تک مسلم لیگ(ن) کی سیاست کے دو بیانئے تھے،نواز شریف کابیانیہ مخاصمت ،محاذ آرائیِ ،اداروں سے ٹکراؤ،جارحیت پر مشتمل تھا،شہباز شریف بڑے بھائی کی پالیسی کے بر عکس صلح جوئی،مذاکرات، مصالحت کی پالیسی پر گامزن تھے، مگر شہباز شریف کی گرفتاری نے ن لیگ کا بیانیہ ایک کر دیا ہے، اب شہباز شریف بھی بڑے بھائی کی جارحانہ پالیسی کے حامی ہو چکے ہیں،مگراس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مسلم لیگ (ن) عملاًقیادت سے محروم ہو چکی ہے،نواز شریف کی سزا معطلی کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کیخلاف نیب سپریم کورٹ اپیل کرنے جا رہا ہے،سپریم کورٹ فیصلہ بحال رکھتی ہے یا سزا بحال کر د یتی ہے اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا،لیکن نواز شریف پارٹی کی قیادت کرنے کے تاحال اہل نہیں،شہباز شریف کیخلاف تحقیقات لمباعرصہ چلیں گی،فوری طور پر انکا باہر آنا مشکل دکھائی دیتا ہے،کیونکہ ایک کے بعد دوسرا مقدمہ ان کیخلاف تیار ہے۔ایک مقدمہ میں ضمانت ملنے پر انہیں دوسرے میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
ن لیگ کی سینئر قیادت کیخلاف بھی مقدمات کی لمبی فہرست ہے،جیسے ہی شریف خاندان کے علاوہ رہنماؤں کیخلاف کارروائی کاآغاز ہوا دوسرے درجے کی قیادت تتر بتر ہو جائیگی، سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کرانے والے وفاقی،صوبائی وزراء ،ارکان اسمبلی،لیگی رہنماؤں کی لمبی قطارہے، جن کیخلاف کارروائی آخری مراحل میں ہے،اولاً ان افراد کو خرچ کی گئی رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کی مہلت دی جائے گی،عمل نہ کرنے والوں کیخلاف کارروائی کے دوسرے مرحلے میں گرفتاریاں ہونگی، مگر اس سے پہلے ہی ن لیگ سوکھے پتوں کیطرح بکھر جانے کا امکان ہے،اگر چہ نواز شریف کا ووٹ بینک آج بھی ہے، مگر حمزہ شہباز کو کارکن اپنا لیڈر تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں،مریم کی حیثیت قدرے مختلف ہے ،مگر ایسے حالات میں کارکنوں کو مٹھی میں رکھنا آسان نہیں ہو گا۔
اوّل توجیسے نواز شریف ،شہباز شریف کا بیانیہ مختلف تھا اسی طرح مریم نواز اور حمزہ شہباز کا بیانیہ بھی الگ الگ ہے،دونوں میں خاندانی اختلاف ہی نہیں کاروباری اور سیاسی اختلافات بھی ہیں۔حمزہ اب بھی باپ کی صلح جوئی کی پالیسی پر کاربند ہیں جبکہ مریم نواز جارحانہ پالیسی پر کاربند ہیں، اگر چہ مریم نواز فی الحال بظاہر گھر میں آرام کر رہی ہیں لیکن در اصل وہ مستقبل کی سیاست بارے بڑی سنجیدگی سے لائحہ عملی مرتب کر رہی ہیں ،جس کی بنیادمحاذ آرائی،مخاصمت،جارحیت ہے، محسوس یہ ہو رہا ہے کہ وہ قیادت کا خلا پُر کرنے کیلئے تیار ہیں جبکہ حمزہ شریف اب بھی جارحیت سے گریز کی پالیسی پر کار بند ہیں،حالات کو دیکھ کر شائد وہ کچھ اور کرنے کا سوچیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نواز شریف سیاست میں ایک زمینی حقیقت ہیں مگر سیاسی طاقت کارکنوں سے ہوتی ہے اورکارکن قیادت کی موجودگی میں متحد و یکجا رہتے ہیں،مگر ن لیگ کی قیادت خود فکری اعتبار سے منتشر ہے اور اس کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے،ایسے میں کارکنوں کو متحرک اور فعال رکھنا کم از کم مریم اور حمزہ کیلئے مشکل نہیں ناممکن ہو گا،ا یسے میں جو سیاسی خلاء وجود میں آئیگا اس کو پُر کرنے کی بلاول بھٹو زرداری بھر پور کوشش کر رہے ہیں،آصف زرداری بیٹے کی سیاسی تربیت خود کر رہے ہیں اور ان کو سیاسی داؤ پیچ،جوڑ توڑ،فرینڈلی اپوزیشن کرنے کے گر سکھا رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا اب تک کا رویہ پالیمانی روایات کے عین مطابق ہے،اداروں کے حوالے سے بھی ان کی پالیسی جارحانہ نہیں،دوستانہ ہے،خود آصف زرداری بھی خاموشی سے صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اب تک مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں بھی شور شرابے کی سیاست میں حصہ دار نہیں بنی،ہر قسم کے حالات کے باوجود آصف زرداری نے سند ھ کی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط رکھی ہوئی ہے۔
مسلم لیگ (ن) 1985سے1993اور پھر 1996 سے1999تک اور اب 2007سے2013تک پنجاب پر حکمران رہی اور اس دوران تین مرتبہ مرکز میں بھی ن لیگ کی حکمرانی رہی،ن لیگ کی سیاست ہمیشہ پنجاب کے گرد گھومتی رہی مگر 2018کے الیکشن میں پنجاب بھی انکے ہاتھ سے نکل گیا،مگر سندھ پر مشرف دور کے بعد پیپلزپارٹی کی حکمرانی رہی،اور لگتا ہے ابھی بھٹو اور بینظیر کا جادو سند ھ کی حد تک سر چڑھ کر بولتا رہیگا۔
آصف زرداری اس صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں،وہ جانتے ہیں کہ تا دیر بھٹو خاندان کے بغیر وہ سندھ کی سیاست میں زندہ نہیں رہ سکتے،اس لئے وہ بلاول بھٹو کو آگے لا کر خود پس پردہ رہ کر سیاسی کھیل کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں اور بلاول کو سندھ سے نکال کر ملک گیر سیاست کرنے کیلئے تیار کر رہے ہیں،شریف خاندان کی سیاست سے بیدخلی کے بعدیہ بہترین موقع ہے کہ اس خلاء کو پُر کرنے کی حکمت عملی وضع کی جائے،اس موقع کا فائدہ نہ اٹھایا گیا تو جلد پیپلز پارٹی کا انجام بھی مسلم لیگ (ن) جیسا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔زرداری کواس حوالے سے ادراک بھی ہے اور احساس بھی،اس لئے اس سے پہلے کہ وہ بھی احتساب کی زد میں آکر پابند سلاسل ہو جائیں وہ بیٹے کو مکمل سیاست دان بنانا چاہتے ہیں۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -