عمران حکومت ہٹاؤ تحریک (2)

عمران حکومت ہٹاؤ تحریک (2)
عمران حکومت ہٹاؤ تحریک (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مولانا فضل الرحمان ”جینا مرنا اور دھرنا“ پر قائم رہتے ہیں تو پھر حکو مت کے لئے اس لحاظ سے تشویش ناک بات ہے کہ ملک میں خلفشار بڑھے گا۔ حالانکہ مسلم لیگ(ن) مولانا کا کھل کر ساتھ دینے سے ہچکچارہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان سربراہ بلاول ساتھ تو دے رہے ہیں لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر انہیں محسوس ہوا کہ مولانا کسی اشارے پر کام کر رہے ہیں تو وہ ساتھ چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ مولانا پر عدم اعتماد کیا ہوگا کہ وہ کسی کے اشارے پر بھی کام کر سکتے ہیں۔ پھر پیپلز پارٹی کیوں نہیں یہ معلوم کر پاتی کہ کہیں سے اشارہ تو نہیں ملا ہے؟ ایک سال کی کوششوں کے بعد بھی مولانا حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں کو ایک ساتھ کرنے میں ناکام رہے۔ انہیں تو اسی وقت اندازہ کر لینا چاہئے تھا جب انہوں نے اپنی بلائی گئی اے پی سی میں اپنی اس تجویز کہ سب کو موجودہ اسمبلیوں سے مستعفی ہوجانا چاہئے۔

وہ تمام قوتیں جن کا دارومدار ہی اسمبلیاں ہوں کیوں کر مولانا کی رائے سے اتفاق کرتے۔مارچ اور دھرنے کا اعلان کر کے مولانا نے اپنا آخری پتہ بھی کھیل لیا ہے اور حکومت کو کڑے امتحان سے دوچار کر دیا ہے۔ مولانا کا داؤ پر کچھ نہیں ہے، عمران حکومت کو ہی چیلنج کا سامنا ہے۔عمراں خان کے نا تجربہ کار ساتھیوں کا یہی کام ہے کہ ہتک آمیز بیانات اور دھمکیوں کا سہارا لیا ہوا ہے۔ عمران خان ان لوگوں کو شٹ اپ کہنے میں بھی خاموشی سے کام لے رہے ہیں۔ مولانا پر طنز کرنے اور دھمکیاں دینے اور جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرنے کی بجائے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کر نا چاہئے۔ اگر عمران خان کے ساتھی مولانا یا ”مولوی طاقت“ کو کمزور سمجھ رہے ہیں تو یہ ان کی طفلانہ سوچ ہے۔ ”مولوی قوت“ اگر کھیل میں اپنی پوزیشن حاصل نہیں کر سکتی ہے تو وہ کھیل کو اس حد تک خراب کر سکتی ہے کہ پھر کوئی بھی نہیں کھیل سکے گا۔ مولانا کو دھمیکیاں دینے کی بجائے ان کے ساتھ با مقصد گفتگو کا آغا کرنا چاہئے۔ انہیں قائل کرنا چاہئے کہ اگر کل انتخابات کرائے بھی جاتے ہیں تو ناکام ہونے والے عناصر نتا ئج کو تسلیم نہیں کریں گے تو پھر کیا ہوگا؟


ایک طرف سیاست ہے، دوسری طرف معیشت کا معاملہ ہے۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا ہے کہ کراچی میں جو استحکام ہونا چاہئے وہ نہیں ہے، ملک میں سرمایہ کاری کے لئے سیاسی استحکام، پالیسیوں میں تسلسل ضروری ہے، 15فیصد دولت اب بھی غیر قانونی راستے سے باہر جارہی ہے انہوں نے کہا کہ گزشتہ 20برسوں میں پاکستان سے 6ارب ڈالر بیرون ملک بھیجے گئے ہیں۔ ان میں سے 85فیصد دولت قانونی طریقے سے بھیجی گئی، حکومت اس کو واپس نہیں لاسکتی، ابھی بھی پاکستانی دولت تسلسل سے بیرون ملک جارہی ہے، پاکستان کے ہر دولت مند آدمی کی بیرون ملک جائیداد، اثاثے اور دبئی میں گھر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ڈاکٹرز اور انجینئرز بھی ٹیکس ادا نہیں کر رہے، نہ ہی زراعت پر ٹیکس دیا جاتا ہے، صرف 3 فیصد دکاندار ٹیکس دیتے ہیں،جبکہ 70 فیصد ٹیکس مینوفیکچرنگ کے شعبے سے آتا ہے۔


فوج کے سربراہ اور کاروباری شخصیات کے درمیان بھی ایک ملاقات ہوئی ہے۔ میٹنگ میں ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، تاہم ڈی جی آئی ایس آئی کھانے کے بعد وہاں سے چلے گئے لیکن انہوں نے جو یقین دہانی کروانی تھی وہ کروا دی۔ اس میٹنگ میں وزیراعظم عمران خان کی اقتصادی ٹیم بھی موجود تھی جس میں حفیظ شیخ، حماد اظہر اور شبر زیدی شامل تھے۔ ساڑھے پانچ گھنٹے تک جاری ر ہنے والے غیر رسمی اجلاس میں ملک کے تیس بڑے کاروباری لوگ موجود تھے۔ عمران خان کی کچھ عرصہ قبل بنی گالہ میں ان ہی لوگوں کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی۔اجلاس میں جنرل باجوہ نے دو ٹوک بات کہی کہ ”آپ پینک نہ ہوں“۔

گفتگو کے آغاز میں ہی جنرل باجوہ نے کہا کہ سیکیورٹی سے متعلق معاملات پر مجھ سے بات کریں اور معاشی سوالوں کے لئے شبر زیدی اور حماد اظہر بیٹھے ہیں، یہ آپ کے سوالوں کے جواب دیں گے۔کاروباری افراد چاہتے تھے کہ نیب انہیں تنگ کر رہاہے، ہماری سرگرمیاں ختم ہو گئی ہیں، خوف اور ڈر ہے، اخبار میں خبر چھپتی ہے تو دوسرے دن ہمیں آ کر اٹھا لیا جاتاہے اور چھاپے مارے جاتے ہیں، حسین داؤد بھی وہاں مووجود تھے، ان کے بارے میں میاں منشا نے کہا کہ ان کو بھی نیب نے نوٹس بھیج دیاہے۔کاروباری افراد کا دوسرا اعتراض سمگلنگ پر تھا کہ جب تک اسے نہیں روکیں گے ٹیکس معاملات حل نہیں ہوں گے در ا اصل اجلاس میں اہم معاملہ نیب تھا کہ وہ بہت زیادتی کر رہا ہے۔ جوا ب میں جنرل باجوہ نے یقین دلایا کہ آپ تسلی رکھیں،ہم چاہتے ہیں ہم دوستانہ ماحول میں کام کریں، جن لوگوں نے غلط چیزیں کی ہیں،سب کو کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی۔


حکومت کی طرف سے کاروباری افراد کو ایک راستہ دیا گیاہے کہ اچھی سا کھ والے کاروباری افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو کہ کسی بھی بڑے کاروباری شخص پر الزامات لگنے پر تحقیقات کرے اور اپنی فائنڈنگ دے، اس پر ایک طرح کا ایگریمنٹ ہواہے کہ ہاں یہ کام کرلیتے ہیں، بزنس مین خود بیٹھ کر طے کر لیں کہ تحقیقات کس کے خلاف اور کہاں تک کرنی ہیں۔ا سمگلنگ پر بات ہوئی تو آرمی چیف اور دیگرافراد جو وہاں پر موجود تھے،نے کہا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں، یہ دیکھنا ہوگا کہ بلوچستان کے کچھ علاقے ہیں وہاں اگر ساری سمگلنگ بند کر دی گئی، بلوچستان کے لوگ بہت غریب ہیں تو ان کے پاس کمانے اور رہنے کے لئے کچھ نہیں، اتنی زیادہ سختی کر دی تو وہاں غریب لوگ ہیں وہ متاثر ہوں گے،تو اس پر انہوں نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ وہاں سو فیصد سمگلنگ ختم ہو تو آ پ لوگ وہاں جائیں اور انڈسٹری لگائیں، لوگوں کو نوکریاں دیں ہم آپ کو سیکیورٹی دیں گے۔ وہاں کان کنی کی بہت بڑی انڈسٹری بن سکتی ہے جسے بر آمد کیا جا سکتاہے، پاکستانی بزنس مین صرف ٹیکسٹائل میں کام کر رہے ہیں اور اس کے سواکچھ کرنے کو تیار نہیں۔


فوج کے سربراہ نے اجلاس میں کہا کہ بڑے کاروباری لوگ ملک میں پیسہ انویسٹ نہیں کر رہے، آپ دبئی اور ابو ظہبی میں گئے وہاں آپ کا پیسہ ڈوب گیا۔ اجلاس میں فوج کے سربراہ نے بڑا انکشاف یہ کیا کہ چین ہمیں بتا رہاہے کہ پاکستان سے 12 ارب ڈالر کے قریب امپورٹ آرڈر آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جب ہم پاکستان واپس آئے تو پتا چلا کہ آفیشل فگر صرف 6 ارب ڈالر کا ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ چھ ارب ڈالر باہر جارہے ہیں، ایکسپورٹر زاگر یہ کام کر رہے ہیں یا ایکسپورٹ کا پیسہ باہر رکھ رہے ہیں۔ آپ ایکسپورٹ کا پیسہ واپس لے آئیں اور اسے ملک میں لگائیں، باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں وہاں ٹیکسز بھی دیتے ہیں اور پیسہ بھی ڈوب جاتاہے۔جنرل باجوہ نے بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ایکسپورٹ آگے بڑھ گئی ہیں، جنرل باجوہ نے کہا کہ اتنی دیر ہو گئی آپ کے پاس ایک بھی تجویز نہیں ہے جو حکومت کو یہ بتائے کہ ہم لوگ ایکسپورٹ کس طرح بڑھا سکتے ہیں، آپ آج بھی روایتی طریقے استعمال کر رہے ہیں لیکن نئے آئیڈیاز نہیں ہیں۔

اجلاس میں بعض شرکاء نے کہا کہ ان کے پاس آئڈیا موجود ہیں لیکن انہیں سپورٹ حاصل نہیں ہے۔ جس پر حفیظ شیخ نے کہا کہ آپ لوگ آئیں، آپ کو کس نے منع کیا ہے، ہم آپ کو سپورٹ دینے کے لئے تیار ہیں۔ کاروباری افراد کو یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ مزید انٹرسٹ ریٹ نہیں بڑھے گا اور ڈالر کی قیمت بھی نہیں بڑھے گی، بلکہ کم ہو گی۔ اس تماش گاہ میں ایسی صورت حال کے بعد مولانا فضل الرحمان کو بھی ٹھنڈے دماغ سے فکر کرنا چاہئے کہ یہ حکومت ختم کرانے اور نئے انتخابات کرانے کا مناسب وقت ہوگا؟

مزید :

رائے -کالم -