”اُردو اور علاقائی زبانیں حق مانگتی ہیں“

 ”اُردو اور علاقائی زبانیں حق مانگتی ہیں“
 ”اُردو اور علاقائی زبانیں حق مانگتی ہیں“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہمارے زمانہئ طالب علمی میں جب کسی ایک سکول کے طالب علموں کا کسی دوسرے سکول یا علاقے کے طلباء سے ملاقات یا رابطہ ہوتا تو اُن کے مابین گفتگو کا محورومرکز اُ ن کے سکول کے اساتذہ،پڑھائی اور ”پِٹائی“ ہوتا۔مثلاًوہ آپس میں پوچھتے، ”آپ نے ریاضی کے کتنے باب مکمّل کر لیے ہیں؟“”انگریزی کے استاد کیسا پڑھاتے ہیں؟“”سُنا ہے آپ کے اُردو کے استاد بہت سخت طبیعت کے مالک ہیں اور مولا بخش ہمیشہ اُ ن کے ہاتھ میں رہتا ہے“۔وغیرہ وغیرہ۔چونکہ وہ دور اُردو ذریعہ تعلیم کا تھا،اور املاء یاد کرنا،الفاظ معانی پر توجّہ دینا،رَوانی سے نَثر پڑھنا،تختیاں لکھناجیسے نصابی مشاغل اس وقتِ قدر شناس کا خاصہ تھے۔یہی وجہ ہے کہ اُس دَور کے پرائمری سکول کے بچے پانچویں کلاس تک آثار الصنّادید،طمطراق،قُسطنطنیہ جیسے مشکل الفاظ تختیوں پر لکھا کرتے تھے،اور پانچویں کلاس تک املاء کی مشکل کتاب”نَشرالعلوم“کا لفظ لفظ اُن کے قلم سے تختی پر اُتر چکا ہوتا تھا۔اُردو پردسترس اُنہیں سکول و کالجوں کے سالانہ میگزین،کہانیوں اوراَفسانوں کی کتابوں اورماہوار رسالوں کے مطالعہ کا شوق دِلاتی تھی۔وقت اتنی بے ڈَھنگے طریقے سے گزرا کہ رفتہ رفتہ ہم انگریزی سیکھنے کے جنون میں اُردو سے اتنے نا آشنا ہو گئے ہیں کہ آج کے دور کے بی اے،ایم اے و دیگر سَندیافتہ افراد نہ صرف اُردوسے نابلدہیں،بلکہ اُردو سے اَوازاری کے سبب، اپنی تحریری ضرورت رومن اُردو میں پوری کرتے ہیں۔
کبھی کالجوں میں سالانہ میگزین نکلا کرتے تھے،جن میں قومی سطح کے اَدیبوں کے علاوہ متعلقہ درسگاہوں کے طلباء اور اساتذہ کی تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔طلباء کے اندر لکھنے کا جذبہ اور مسابقت کا شوق پیدا ہوتا تھا۔مگر جُوں جُوں وقت گزرتا گیا۔کچھ نظامِ تعلیم کے اُردو سے احتراز کے سبب اورکچھ معاشرتی رابطے کی مشینوں کی کارستانی کے باعث اُردو لکھنے اور پڑھنے کا شوق ماند پڑگیا۔وہ تعلیمی ادارے جہاں،سالانہ، تواتر سے خوبصورت تحریروں سے مزیّن مُجلّے شائع ہوتے تھے۔لحظہ بہ لحظہ وقت کے مزاج سے متاثّر ہوتے رہے اور بالآخر خاموشی چھا گئی۔


پچھلے دنوں دو سرکاری کالجز کے میگزین ہاتھ لگے تو دیکھ کر خوشی کی انتہا نہ رہی اور بے اختیار منہ سے نِکلا۔”زندہ ہیں اب بھی لوگ زمانے میں۔محبّت جن کوہے اپنی روایتِ ماضی سے“ پہلا میگزین گورنمنٹ امامیہ کالج،ساہیوال کاسامنے آیا۔جو ادارے کے پرنسپل اور میگزین کے سرپرست اعلیٰ پروفیسر محمدشہزاد رفیق کی سرپرستی میں کالج کی گولڈن جوبلی کے اہم موقع پر شائع کیا گیاہے۔اس ضمن میں یہ بات تہنیّت طلب ہے کہ یہ کارنامہ کالج کی تاریخ میں پہلی بار،وباء کے دنوں میں،انجام پایا۔جہاں مجلسِ ادارت نے ساہیوال کے تاریخی،تہذیبی اورجمالیاتی نقوش کو شمارے میں بطورِ خاص محفوظ کرنے کا جتن کیا ہے۔وہاں دلفریب نَثری و شعری تخلیقات کی فصلِ بہار سے روح کی سیرابی کا سامان بھی مہیّاکیاہے۔میگزین کو تین حصّوں اُردو،پنجابی اور انگریزی میں تقسیم کیا گیا ہے۔اُردو کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ استاد شعراء اور تخلیقاروں کی تحریروں کی بھرمار سے اجتناب برتا گیاہے۔زیادہ تر توجّہ اقبال کے فِکر اور میر کی شعری گیرائی کے بیانیہ پر منعکس کی گئی ہے۔اس کے علاوہ پروفیسر جیلانی کامران،ڈاکٹر منظور اعجاز، پروفیسر نبیلہ کیانی اور پروفیسر امجد علی شاکر کے مختلف موضوعات پر طویل مضامین بھی جزہائے کتاب ہیں۔دیگرتحریروں میں غِنائیت سے بھرپور نعتیں، آزاد وپابند نظمیں اورگیتوں کی پُھلکاریاں قابلِ توجّہ ہیں،جن میں معروف شعراء کے کلام سے قطعہئ نظر،کالج کے اساتذہ اور طلباء نے اپنا بھرپور حصّہ ڈالا ہے۔کُل دو سو چالیس صفحات میں سے پنجابی کے حصّے میں بیس صفحات اور انگریزی کے حصّے میں چھتیس صفحات آئے ہیں۔جن میں متعلقہ زمانوں کی چندچُنیدہ نگارشات پیش کی گئی ہیں۔اگرپنجابی کا حصّہ تھوڑا بڑھا دیا جاتا اور کم سے کم انگریزی کے برابر کر دیا جاتا،تو صفحات کی حد تک تو انصاف کی بات بنتی۔


گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج جامعہ محمدیہ شریف جس کا سابقہ نام گورنمنٹ کلیہ عربیہ اسلامیہ ڈگری کالج محمد ی شریف تھا،نے اپنی تاریخ کا تیسرا پرچہ”چندن“ کے عنوان سے نکالنے کا آغاز کیا ہے،جس کا سہرا کالج کے پرنسپل ڈاکٹر فیصل حیات جپّاکے سرہے۔دریائے چناب کے کنارے،اس کالج کا قیام اپنے وقت کے درویش،م تّقی،عالمِ دین اور مبلّغ جناب حضرت مولانا محمّد ذاکرؒ کی کوششوں کا ثَمر ہے۔دریاکے کنڈھوں کے قریب اور مواصلاتی سہولیات سے ”پاک“ دیہاتیوں کے لئے یہ ادارہ ایک نعمتِ بے مثل رہا ہے۔تاہم یہاں تدریسی عملہ کی ہمیشہ کمی رہی ہے،جس کے سبب فارسی کے استاد،انگریزی پڑھانے کی”سعادت“ حاصل کرتے رہے ہیں۔


”چندن“کالج کا پہلا پرچہ ہونے اور چند دیگر امور کے باعث گورنمنٹ امامیہ کالج،ساہیوال کے پرچہ”باب العلم“جیسی صنخامت تو حاصل نہیں کر سکا،تاہم اس پرچہ میں تحریروں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔جہاں نثری تحریریں مکمّل طور پر کالج کے اپنے اساتذہ اور ایک طالب علم کی تخلیق ہیں،وہاں جُملہ غزلیات اور گیت مہمان شعراء کے ہیں۔سو میں سے تیس صفحات،پنجابی زبان کے حصّہ میں آئے ہیں۔اس حصّہ کو ”پنجاب رنگ“کے تحت اُردو سے جُدا رکھاگیا ہے جو یقیناًپرنسپل صاحب کی پنجابی زبان کے ساتھ ذاتی لگن اور عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس میں بھی حصّہئ اُردو کی تحریری تقسیم کوبرقرار رکھا گیا ہے۔غزلیات اور نظمیں مہمان شعراء سے لی گئی ہیں جبکہ نَثر اور علاقے کی معروف  صِنف دوہڑامقامی اور علاقائی اَدیبوں سے منسوب ہیں۔


دو مختلف درس گاہوں سے نکلنے والے پرچوں پر بات چیت کرنے کا مقصد کتابوں پر تبصرہ قطعاًنہیں ہے بلکہ اس دورِقدرناشناہی اور ہوس کاری میں اُردو اور پنجابی کی ڈوبتی ناؤ کو چپوؤں کے ذریعے ساحلِ مُراد کی طرف موڑنے کی اَنتھک کوشش کرنے والوں کی تہنَیّت ہے۔آج اُردو،پنجابی اور دیگر علاقائی زبانیں ”انگریزی کورونا“کاشکار ہیں۔ان زبانوں کی سانسیں اُکھڑ رہی ہیں۔ان کی زندگیوں کو بچانے کیلئے آکسیجن کے ذخائر تعلیمی درسگاہوں میں دستیاب ہیں۔اگر ان کے سربراہان مُجلّوں کی اشاعت کی دگرگوں ریت کو سہارا دینے کا عہد کر لیں، تو قوّی امکان ہے کہ اُردو اور علاقائی زبانیں زندگی کی طرف لوٹ آئیں گی۔

مزید :

رائے -کالم -