ماہ ربیع الاول کے ساتھ وجہ تخلیق کائنات، امام الانبیاء، خاتم المرسلین، مکین گنبد خضریٰ، سید الوریٰ حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے 4اہم ترین حصوں کی گہری وابستگی ہے.
آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ماہ ربیع الاول میں ہوئی.
منسب نبوت پر جب فائز کیے گئے تو تب بھی ربیع الاول کا مہینہ تھا.
جب اہل مکہ کے ظلم و تشدد اور بربریت کی وجہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی تو تب بھی ربیع الاول کا ہی مہینہ تھا.
63 برس کی زندگی میں جب اللہ پاک کی طرف لوٹنے کا وقت آیا تو تب بھی ربیع الاول کا ماہ بابرکت تھا.
یہی وجہ ہے کہ محسن انسانیت ﷺ کے چاہنے والے اس مہینے کو انتہائی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں اور محافل و مجالس کا انتظام کرتے ہیں. سید کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات وہ ذات ہے کہ جن کے انسانیت پر اتنے احسانات ہیں جو شمار نہیں کیے جاسکتے. تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ بعثت نبوی ﷺ سے قبل معاشرہ اس قدر گراوٹ کا شکار تھا کہ انسان کو حیوان کا درجہ دینا بھی بددیانتی تھا کسی رشتے کی کوئی تمیز نہیں تھی. ہر سو جہالت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے. لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، بھائی اپنے بھائی کا سگا نہ تھا،بیٹے کو اپنے باپ پر بھروسہ نہیں تھا، مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کے ہاتھوں رسوا ہوتی تھیں، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا مردانگی کی علامت گردانا جاتا تھا، اناؤں اور ہٹ دھرمیوں کا دور دورہ تھا،بے تکی اور بلا وجہ کی پرانی دشمنیاں تھیں جو صدیوں سے چلی آ رہی تھیں.
انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی. کسی کے ذاتی مال پر بھی اس کا حق تسلیم نہیں کیا جاتا تھا. لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، زور آزمائی جاری تھی، لڑنے کے لیے وجہ تک درکار نہ ہوتی تھی صرف ایک فریق چاہئے ہوتا تھا ، وجہ وہ پلک جھپکنے سے پہلے پیدا کرلیتے تھے.
بقول شاعر
کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پر جھگڑا
یونہی ہوتی رہتی تھی تکرار ان میں
پھر صدیوں چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
ان پر کوئی حکمرانی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ کسی دوسرے کا وجود تک برداشت کرنے کا ان میں حوصلہ نہیں تھا. ہر قسم کی برائیوں میں جکڑے معاشرے میں 40 سال کی بے مثل و بے مثال زندگی گزارنے والے میرے آقا مدنی کریم ﷺ برائیوں کی آماجگاہ میں رہتے ہوئے بھی کبھی کسی برائی کے پاس سے نہ گزرے. پورے علاقے میں آپﷺ کی شرافت، دیانت، سچائی اور اخلاقی برتری کا ڈنکا بجتا تھا لیکن جب اصلاح معاشرہ کے لیے آپ ﷺ نے کوششیں شروع کیں تو وہ مداح ناقد ہی نہیں بلکہ جان کے دشمن بن گئے.
محسن انسانیتؐ نے اس بدترین معاشرے میں خود کو اتنا بہترین پیش کیا کہ لوگ اس کو تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکے. ان لوگوں کی ایسی تربیت کی کہ دنیا آج تک ویسی کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے. اپنی بہترین حکمت عملی سے اس وقت جو انسانوں کو حقوق دیے مہذب معاشرے آج بھی ان بنیادی انسانی حقوق کی ترویج و تدوین کے لیے کوشاں ہیں. ریاست مدینہ کے قیام کے وقت جو پہلا تحریری آئین پیش کیا اس میں انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی انسان کے تمام بنیادی حقوق تسلیم کیے گئے بلکہ ریاست کو ان کا ذمہ دار بنایا گیا.
فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر کعبہ کی طرف اشارہ کرکے بتا دیا کہ" اے لوگو جیسے اس کعبہ کی بڑی عزت و حرمت ہے ناں، کہ تم لوگ دنیا جہان کی ہر چیز سے اسے مقدس و محترم سمجھتے ہو خدا کی قسم انسانی جان اس سے کہیں زیادہ مقدس و محترم ہے". آپؐ نے بتایا ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے. کسی کو بھی مذہب کی بنیاد پر قتل کرنے سے سخت منع کردیا بلکہ ریاست کو اس کا ذمہ دار بنا دیا. ایک مسلمان نے جب کسی دوسرے مذہب کے انسان کو ناحق قتل کیا تو آپﷺنے اس کو سزا دی اور بتا دیا کہ مذہب کی تفریق کیے بغیر انسانی حقوق کا یوں احترام کیا جاتا ہے.
دوسرے مذاہب کو بھی وہ تمام حقوق دیئے جو اپنے مذہب کے ماننے والوں کو دیئے. جب دوسرے مذاہب کے وفود آتے تو آپﷺ انہیں مسجد میں ٹھہراتے اور انہیں مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت بھی دیتے. انہوں نے اتنا بہترین ریاستی نظام بنایا کہ حضرت عمرؓ کے دور میں جب بیت المقدس ریاست مدینہ کے زیرانتظام آیا تو حضرت عمرؓ نے وہاں سے بے دخل کیے جانے والے یہودیوں کو بلایا اور ان کا معبد تعمیر کروا کر انہیں اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا.
وہ آئے جن کے آنے کی زمانے کو ضرورت تھی
وہ آئے جن کی آمد کے لیے بے چین فطرت تھی
وہ آئے جب تو عظمت بڑھ گئی دنیا میں انساں کی
وہ آئے جب تو انساں کو فرشتوں کے سلام آئے
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں