وہ نہیں مان رہا، یہ ”نیکسٹ لیول“ کا پاکستان ہے،وہ ”سینڈوچ“ بن چکا تھا،”ظالمو، گنڈا پور چلا گیا ہے“ آنیاں جانیاں لے بیٹھیں
وہ نہیں ”مان“ رہا، وہ لڑائی اور آگے لے گیا ہے۔وہ کیا ”چاہتا“ ہے؟”اندر“ رہ کر بھی وہ ”باہر“ ہے۔سب کے حواس پر ”سوار“ ہے۔ کتنے گنڈا پور آئیں گے اور کیا اسی طرح چلے بھی جائیں گے؟ یہ ہے وہ سوال، جس کا کسی کے پاس جواب نہیں۔ یہ ”نیکسٹ لیول“ کا پاکستان ہے، جہاں فیصلے بھی ”وہ“ کر رہا ہے، جو سلاخوں کے پیچھے ہے۔اور ان پر ”من و عن“ عمل ہو رہا ہے۔کیا یہ نیا پاکستان ہے؟اسے پاگل پن کہیں یا کچھ اور، یہ بالی ووڈ کی فلم نہیں بلکہ پاکستان کا میدان ہے۔
بھارتی فلم ”گاڈ فادر“ دیکھی۔ ایک ”مقبول سیاسی شخصیت“ کو اس کا مخالف رشتہ دار جھوٹے کیس میں جیل میں بند کرا دیتا ہے۔ وہ پاپولر ”نیتا“ (لیڈر) شوق سے سلاخوں کے پیچھے چلا جاتا ہے۔ کتابیں پڑھنے لگتا ہے۔ کچھ عرصے بعد”ستہ“ حاصل کرنے کا خواہشمند وہی مخالف جیل میں اس سے ملنے جاتا ہے۔ پاپولر ”نیتا“ کو ”ڈیل“ کی آفر کرتا ہے۔ وہ اس کی سنتا ہے، جواب نہیں دیتا، خاموش رہ کر ”انکار“ کر دیتا ہے۔ جب وہ ”مایوس“ ہو کر واپس جانے لگتا ہے تو باہر کھڑا داروغہ سلاخوں کا تالا نہیں کھولتا۔ آزادی کا پروانہ لے کر آنے والا وہی ”آزاد“ شخص خود کو ”قید“ تصور کرتا ہے، غصے سے کبھی داروغہ کو دیکھتا ہے اور کبھی اُسے، جس کے ایک ہاتھ میں کتاب ہے اور دوسرے ہاتھ میں عینک۔ اُس لمحے وہ ”طاقتور“ خود کو ”لاچار“ محسوس کرتا ہے۔ یکدم داروغہ پاپولر ”نیتا“ کی طرف دیکھتا ہے۔ کیمرہ اُس ”قیدی“(قیدی کہیں یا پاپولرنیتا) کی طرف آتا ہے، وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ گردن ہلاتا ہے اور داروغہ تالا کھول دیتا ہے۔
علی امین گنڈاپور کے ساتھ بھی کیا یہی کچھ ہوا؟ 13فروری 2024ء کو عمران خان نے”جیل“ سے علی امین گنڈا پور کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کیلئے نامزد کیا۔2مارچ 2024ء کو علی امین گنڈاپور نے بطور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اور 8اکتوبر 2025ء کو عمران خان نے ”جیل“ سے علی امین گنڈا پور کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا۔ اس عرصے میں کیا کچھ ہوا؟ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ کیا کچھ نہیں ہوا؟ قارئین کو یاد ہو گا، اسی پلیٹ فارم پر تحریر کیا گیا کہ ”ظالمو، گنڈا پور آ رہا ہے“۔ اب لکھنا پڑ رہا ہے کہ ”ظالمو، گنڈا پور چلا گیا ہے“۔یہی آنیاں جانیاں لے بیٹھیں۔
ایک سیاسی کارکن اور پارٹی ورکر علی امین گنڈا پور کی صرف ایک ذمہ داری تھی۔جو ”خان“ کہے، اس پر عمل کرنا۔شاید اسی ایک بات پر ہی عمل نہ ہوا۔گنڈا پور ”خان“ کی رہائی کے ”مشن“ پر چل پڑا۔ ظاہری سی بات ہے کہ وزیراعلیٰ کی کرسی اتنی ”طاقتور“ ہوتی ہے کہ بندہ ”بہک“ جاتا ہے ۔ ”بہکانے“ والے ہی بہت ہوتے ہیں۔کبھی گنڈا پور کو کہا جاتا کہ یہ جا کرکہو۔ کبھی کہتے، تم اب وزیراعلیٰ ہو، تمہاری بات میں ”وزن“ ہے، یہ والی ڈیل آفر کرو۔ گنڈا پور بار بار آ کرصرف ایک ہی بات کہتا۔ ”وہ نہیں مان رہا“۔
”خان“ ہر بار اسے کچھ اور کہہ دیتا۔ ہلکی پھلکی ”ڈانٹ ڈپٹ“ بھی کر دیتا۔ وزیراعلیٰ جو تھا۔گنڈا پور ”پھنس“ گیا تھا۔ ”سینڈوچ“ بن چکا تھا۔ نہ باہر والے خوش نہ اندر والا خوش۔ اور پھر 26نومبر 2024ء ہو گیا۔ گولی چل گئی۔ بشریٰ بی بی کو بڑی مشکل سے اسلام آباد سے پشاور منتقل کیا گیا۔یہی ٹرننگ پوائنٹ تھا، جہاں سے علی امین گنڈا پور کے ”کنٹرول“ سے چیزیں باہر ہونے لگیں۔ پھر ایک نئی بحث چل نکلی کہ ہوا کیا؟ 25جنوری 2025ء کو عمران خان نے علی امین گنڈا پور سے تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی صوبائی صدارت واپس لے لی۔ اور یہ ذمہ داری جنید اکبر خان کو دے دی۔ گنڈا پور کو پھر بھی سمجھ نہ آئی کہ ہوا کیا؟ وہ بہت آگے جا چکا تھا۔ ”اڈیالہ“ بھیجتے رہے۔ وہ جاتارہا اور آ کر کہتا رہا۔ ”وہ نہیں مان رہا“۔
17جنوری 2025ء کو بشریٰ بی بی کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس بار بھی گنڈا پور کچھ نہ کر سکا۔ کیسے کچھ کرتا؟کام ہی صرف ”پیغام“ پہنچانا اور کسی ”ڈیل“ پر ”آمادہ“ کرنا رہ گیا تھا۔ اور وہ بھی نہیں ہو رہا تھا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور کچھ بن ہی نہیں رہا تھا۔ ایسے میں جون کا مہینہ آ گیا۔ ”خان“ نے سختی سے کہہ دیا کہ اس کی ”مرضی“ کے بغیر بجٹ پاس نہیں ہونا چاہئے۔ گنڈاپور نے یہ بات بھی نہ مانی۔ بڑی تاویلیں دیں، آئینی حوالے دیئے، کسی نے بات نہ مانی۔یہ دوسرا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ یہیں سے ایک اور بحث شروع ہوئی۔ کیا گنڈا پور نے ”حکم“ نظرانداز کیا۔ اس بحث کو علیمہ خان نے تقویت دی۔ ہر بار اڈیالہ کے باہر علیمہ خان یہ بتاتی رہیں کہ عمران خان ناراض ہیں، گنڈا پور کیوں عمران خان سے نہیں ملتے؟ بجٹ کیوں پاس ہوا؟ یہاں تک کہ عمران خان نے بھی کہا کہ علی امین گنڈا پور سپریم کورٹ جائیں اور بتائیں کہ انہیں مجھ سے نہیں ملنے دیا جا رہا۔
علی امین گنڈا پور کے خلاف’’ ہوم ورک‘‘ مکمل ہو چکا تھا۔ گزشتہ ہفتے والی ملاقات میں ”آخری فیصلہ“ ہوا۔ جب علی امین گنڈا پور نے واشگاف الفاظ میں علیمہ خان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ یہ بات ”خان“ تک رہتی تو ٹھیک تھا۔ لیکن گنڈا پور نے باقاعدہ ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے سب کو ”بذات خود“ اس سے آگاہ کیا کہ ”میں بتا آیا ہوں، پارٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے، سب بتا چکا ہوں، کون سازشی ہے، کون پارٹی توڑ رہا ہے، یہ بھی بتا آیا ہوں“۔
گنڈا پور کے اس بیان کاجواب ”خان“ نے 3 روز قبل یوں دیا۔ ”جب مجھے اندازہ ہوگیا کہ پارٹی میں کوئی بھی میرے بیانیے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تو میں نے یہ ذمے داری اپنی بہنوں کو دی“۔ نام لیے بغیر جواب دے دیا۔ بلکہ ”صاف“ جواب دے دیا۔ بتا دیا کہ بیانیے کا بوجھ تو کوئی اٹھا نہیں سکتا، رہائی کا ”مشن“ کیسے پورا کرے گا؟
ہر طرف کہانیاں ہیں، کوئی کہتا ہے کہ گنڈا پور کو علیمہ خان لے ڈوبیں، پارٹی کے اختلافات سے ”وہ“ پریشان ہے، کے پی میں آپریشن وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی وجہ بنی، وغیرہ وغیرہ۔ بات صرف ایک ہے، خبر بھی یہی ہے، وہ نہیں مان رہا۔ وہ لڑائی اورآگے لے گیا ہے۔ یہ ”نیکسٹ لیول“ کا پاکستان ہے۔وہ سب کے حواس پر سوار ہے۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں
