کمایا بھی خوب اجاڑا بھی خوب، بوڑھی عورت منت کر تے کہنے لگی ”پتر! رقم نہ خرچو تے کوئی نوکری نئیں دیندا“، آدھی نیکی میں نے کر دی آدھی صاحب نے
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:314
نیکی کر دریا میں ڈال؛
ایک روز ایک بوڑھی اماں اپنے جوان بیٹے کے ساتھ دفتر آئی اور بیٹے کی نوکری کے لئے منت سماجت کرنے لگی۔ اس زمانے میں ہر ضلع میں نائب قاصدوں کی بھرتی ہو رہی تھی۔ اس بھرتی کے انچارج صاحب ہی تھے۔ بوڑھی عورت منت کر تے کہنے لگی؛پتر! رقم نہ خرچو تے کوئی نوکری نئیں دیندا۔ میں رنڈی کتھوں پیسے لے کے آواں۔“اماں کو چائے پلائی اور کہا؛”اماں فکر نہ کر تیرے پتر نوں نو کری مل جاسی۔“ صاحب آئے تو ان سے بھی کہا؛”سر! یہ نیکی آدھی میں نے کر دی ہے آدھی آپ کر دیں۔ کہیں تو میں ڈی سی او سرگودھا کو فون پر بچے کی نوکری کے لئے کہہ دوں۔“کہنے لگے؛”آ پ کو پہلے ہی کہہ دینا چاہیے تھا۔“ ڈی سی او سرگودھا حمید وڑائچ کو فون کرکے اس بچے کی نو کری کا کہا۔اگلے روز فیکس پر آڈرز مل گئے اور اس سے اگلے روز اماں ایک پاؤ مٹھائی کا ڈبہ لئے دفترپہنچ گئی۔ اس نے میرے ماتھے کا بوسہ لیا جو دعائیں دیں اُن کا کوئی مول نہ تھا۔ مٹھائی کا وہ ڈبہ عرصہ تک میں نے بطور تبرک سنبھالے رکھا تھا۔
میرے دونوں ڈرائیور ممتاز اور عتیق تھوڑا تھوڑا عرصہ میرے ساتھ ڈیلی ویجز کے طورپر ڈیوٹی دیتے رہے اورپھر انہیں ایس اینڈ جی اے ڈی میں بھرتی کرا دیا۔اسی طرح بوٹا میرا 40 سال پرانا گھریلو ملازم کو بھی محکمہ بلدیات میں نائب قاصد رکھوا دیا۔ یہ سب نیکیاں ہی تھیں جس کا موقع زندگی میں شاید پہلی اور آخری بار ملا تھا۔البتہ مشتاق کے بیٹے سطوت کی لوکل گورنمنٹ اکیڈمی میں بطور جو نئیر کلرک تقرری کی دلچسپ کہانی رہی۔یہ بھرتی ڈی جی لوکل گورنمنٹ کرنل شہباز کا اختیار تھا۔ ان کو فون کرکے سطوت کو بھرتی کرنے کی درخواست کی۔ اگلے روز ان کا فون آیا کہ”جونئیر کلرک نہیں نائب قاصد بھرتی کر دیتا ہوں۔“ میں نے انہیں آگاہ کیا؛”سر! یہ میرا بھتیجا ہے کیوں اپنے ہاتھ سے اسے نائب قاصد بھرتی کراؤں جبکہ یہ جونئیر کلر ک کی پوسٹ کے لئے کوائیفائی بھی کرتا ہے، حقدار بھی ہے کہ اس کے باپ اور دادا دونوں نے ہی محکمے کی خدمت کی ہے اور میں اس پوزیشن میں بھی ہوں کہ یہ جونئیر کلرک ہی بھرتی ہو۔“میں نے اصرار کیا تو بولے؛”نائب قاصد بھی نہیں ہو گا۔“ میں نے بھی غصہ میں کہہ دیا؛ ”سر! میں بھی دیکھتا ہوں اگر سطوت جو نئیر کلرک بھرتی نہیں ہوا تو کوئی تقرری کیسے ہو گی۔“ تھوڑی دیر میں ہی اُن کا فون آیا کہنے لگے؛”توں ڈاڈا ایں۔ سطوت کو جو نئیر کلرک بھرتی کر لیا ہے۔“ یہ ان کی مہربانی اور پیار تھا۔ وہ دل کے اچھے تھے۔
چند اور بھرتیاں بھی کرائیں۔ اُن بچوں کو میں جانتا تک نہیں تھا۔ شاید اللہ نے اُن کے گھروں کی دال روٹی ہماری وساطت سے لکھ دی تھی۔ یہ صاحب کی مہر بانی تھی کہ وہ میری سفارش مان لیا کرتے تھے۔اسی طرح ایک غریب اور یتیم بچی صدف کی ڈاکٹر ی فیس کبھی میں، کبھی صاحب اور کبھی کسی یار دوست سے دلوا دیتا تھا جن میں واسخ قریشی سر فہرست تھا۔ یہ بچی ڈاکٹر بنی اور پھر کبھی اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اب اس محاورے کا مطلب سمجھ آ یا تھا”نیکی کر دریا میں ڈال۔“پیسہ واسخ قریشی پر فدا رہتا اور یہ اپنی بیگم پر جبکہ اس کی بیگم کو اس سے زیادہ پیسے سے پیار تھا۔ اس نے کمایا بھی خوب اور اجاڑا بھی خوب۔ ایک بار انٹی کر پشن سرگودھا نے اسے گرفتار کر لیا۔ایف آئی آ ر درج ہوئی۔ صاحب عمرہ کے لئے گئے ہوئے تھے۔ اس کی بیگم کو مجھے فون آ یا(ان کی بیگم کے بھائی اور میرے بھتیجے کاشف اور فیصل(بھائی جان شہزاد کے بیٹے مجھے بہت عزیز تھے اور ان سے میری دوستی بھی خوب تھی۔اب دونوں ہی امریکہ ہوتے ہیں۔) اسلام آباد میں ہمسائے اور دوست تھے۔)اور روتے بولی؛”شہزاد بھائی! واسخ کو اینٹی کرپشن نے گرفتار کر لیا۔ کچھ کریں۔“ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا؛”بھابھی جب یہ بڑی بڑی رقم آپ کو لا کر دیتا تھا تب کبھی آپ نے منع کیا تھا ایسا مت کرو۔“ شرمندگی میں وہ کچھ نہ بول سکی تھی۔2 دن بعد واسخ کی ضمانت ہو گئی تھی لیکن وہ اپنی ڈگر پر ہی چلتا رہا تھا۔بعد میں میری ہی سفارش پر ”ٹی او آئی اینڈ ایس علامہ اقبال ٹاؤن لاہور“ تعینات ہوا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
