غزہ جہاں سٹیڈیمز تباہ ہو چکے اور بچے بموں کی جگہ گیندوں سے کھیلنے کا خواب دیکھتے ہیں،’’ہم واپس اٹھیں گے‘‘صحافی ابوبکر جیسی آوازیں امید کی کرن ہیں
دیر البلح، غزہ ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) غزہ کی تنگ گلیوں میں بموں کی گونج اور فٹ بال کی یادوں کی آمیزش – یہ ہے ابوبکر عابد کی روزمرہ کی زندگی، جو دیر البلح کے ایک فلسطینی صحافی اور فٹ بال کمنٹیٹر ہیں۔ ابوبکر نہ صرف میدانِ جنگ کی خبر دیتے ہیں بلکہ فٹ بال کی دنیا کو غزہ کی آنکھوں سے جوڑے رکھتے ہیں۔

ابوبکر عابدغزہ کی تباہی کو دنیا تک پہنچانے والے ان صحافیوں میں سے ایک ہیں جو ہر روز موت کے سائے میں کام کرتے ہیں۔ابوبکر کی پوسٹس نہ صرف فٹ بال میچز کی کمنٹری کرتی ہیں بلکہ غزہ میں انسانی المیے کی عکاسی بھی کرتی ہیں جہاں سٹیڈیمز تباہ ہو چکے ہیں اور بچے بموں کی جگہ گیندوں سے کھیلنے کا خواب دیکھتے ہیں۔
حال ہی میں، دیر البلح پر اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں نے شہر کو انسانی امداد کا آخری مرکز ہونے کے باوجود برباد کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، یہ علاقہ اب تک جنگ سے نسبتاً محفوظ تھا، جہاں ہزاروں نقل مکانی کرنے والے فلسطینی پناہ لے چکے تھے۔ ابوبکر نے اپنے ایک حالیہ ٹوئٹ میں لکھا’’الدورہ سٹیڈیم، جو فٹ بال کا میدان تھا، اب ہزاروں بے گھر لوگوں کا پناہ گاہ بن چکا ہے۔ ‘‘
ابوبکر کی کہانی غزہ کے 217 سے زائد ہلاک شدہ صحافیوں کی یاد دلاتی ہے، جن میں سے 36 فیصد دیر البلح سے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ فٹ بال ان کی زندگی کا شوق تھا – چیلسی فین ہونے سے لے کر مقامی کلبوں کی کوریج تک – لیکن اکتوبر 2023 کی جنگ نے سب کچھ چھین لیا۔ ’’میں نے سب کچھ کھو دیا‘‘وہ کہتے ہیں،’’لیکن فٹ بال کی طرح، ہم واپس اٹھیں گے۔‘‘
اس وقت جب غزہ میں بھوک اور موت کا سلسلہ جاری ہے، ابوبکر جیسی آوازیں امید کی کرن ہیں۔
