حقانی نیٹ ورک اور امریکہ
جمعہ کے روز امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ ہیلری کلنٹن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اس تنظیم کے خلاف سفارتی، فوجی اور انٹیلی جنس دباﺅ برقرار رکھے گا۔تاکہ اس کی پر تشدد کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کم کی جا سکے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ امریکی کانگریس نے حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے لئے قانون منظور کیا تھا۔ اس میں سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن کو ہدایت کی گئی تھی کہ 9 ستمبر تک حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے یا ایسا نہ کرنے کی صورت میں عدم عملدرآمد کی وجوہات فراہم کی جائیں۔ ہیلری کلنٹن کے مطابق انہوں نے اس حوالے سے رپورٹ کانگریس کو ارسال کر دی ہے۔ دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ اس فیصلے کا پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی پاکستان کو ریاستی سطح پر دہشت گردی کا سرپرست قرار دینے کا کوئی ارادہ ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کو اس فیصلے کے متعلق کم از کم دو ہفتے قبل آگاہ کر دیا گیا تھا اور پاکستانی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے تحفظات یا اعتراضات کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ امریکہ کا اندرونی معاملہ ہے۔ حقانی پاکستانی شہری نہیں ہیں اور پاکستان امریکہ سمیت تمام اتحادیوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جدوجہد جاری رکھنا چاہتا ہے۔
امریکہ کی جانب سے کسی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کا مطلب ہے امریکہ کا کوئی مالیاتی ادارہ اس کے ساتھ لین دین نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی کوئی امریکی شہری اسے کسی قسم کی امداد فراہم کر سکتا ہے۔ مزید یہ کہ ایسے گروہوں کی امریکہ میں موجود املاک بھی ضبط کرلی جاتی ہیں۔ اس اقدام کا مقصد عملی سے زیادہ علامتی ہے۔ حقانی نیٹ ورک کوئی ایسی تنظیم نہیں جس کے بینک اکاﺅنٹس ہوں یا جو اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لئے عام لوگوں سے چندا اکٹھا کرتی ہو۔ لہٰذا امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیئے جانے کے بعد بھی حقانی نیٹ ورک پر شاید اس اقدام کے بہت زیادہ اثرات مرتب نہ ہوں، لیکن دیگر ممالک کے لئے واضح پیغام ہے کہ اس تنظیم کے ساتھ تعلقات کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیںدیکھا جائے گا۔ بنیادی طور پر یہ قدم امریکی حکومت کی جانب سے کانگریس کے دباﺅ کے نتیجے میں اٹھایا گیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق اوبامہ انتظامیہ حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینے کی مخالف رہی ہے۔ امریکی حکام کا خیال تھا کہ ایسے کسی اقدام سے حقانیوں کو مذاکرات کی میز پر لانا مزید مشکل ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ افغانستان پر بھی اثر انداز ہو گا اور 2014ءتک امریکی فوجوں کے انخلاءکے فیصلے پر عملدرآمد کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی ہوں گی۔ تاہم امریکی اور نیٹو افواج پر ہونے والے مسلسل حملوں اور امریکی حکام کی جانب سے ان کا ذمہ دار حقانی نیٹ ورک کو ٹھہرائے جانے کے بعد کانگریس کا مطالبہ تھا کہ اس تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے یا ایسا نہ کرنے کی وجوہات بتائی جائیں۔ لہٰذا دیکھا جائے تو اس اقدام کے پیچھے زیادہ عمل دخل امریکہ کی اندرونی سیاست کا ہے۔ بعض حلقوں کے مطابق یہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مذاکرات کے حل کے حوالے سے امریکی مایوسی کا اظہار بھی ہے اور اس نے اس کے ساتھ حتمی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
امریکی دفتر خارجہ کے مطابق اس فیصلے کے اعلان سے کم از کم دو ہفتے قبل پاکستانی حکام کو آگاہ کر دیا گیا تھا اور ان کی جانب سے اس حوالے سے کسی قسم کی مزاحمت یا تحفظات سامنے نہیں آئے۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ پاکستان بھی حقانی نیٹ ورک کے ذمہ داران کو مذاکرات کی میز تک لانے میں ناکام رہا ہے۔ افغانوں کے معاملے میں یہ بڑا مشکل ہے کہ ان سے کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف منوائی جا سکے۔ امریکہ سمیت باقی تمام دنیا کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے اور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے مستقبل کی کوئی حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے۔ حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کے بعد امریکہ میں پاکستان مخالف لابی کی سرگرمیوں میں تیزی آنے کا امکان ہے۔ حقانی نیٹ ورک سے تعاون کے الزامات اب مزید شدت سے لگائے جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان پر پابندیوں کے مطالبات بھی سامنے آئیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے80 فیصد سے زائد لوگ اب بھی افغانستان ہی میں موجود ہیں اور پاکستان میں ان کی موجودگی ہے بھی تو بے حد محدود سطح پر ہے۔ امریکی فوجی حکام کی جانب سے مسلسل پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تعاون کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ غور طلب بات ہے کہ اگر امریکہ افغانستان میں اس قدر بڑی تعداد میں فوجیوں کی موجودگی اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود حقانی نیٹ ورک کی نقل و حرکت قابو کرنے میں ناکام ہے تو پاکستان سے اس پر مکمل طور پر قابو پانے کی امید کی جا سکتی ہے؟ پاکستان کے لئے قلیل وسائل میں اس انتہائی دشوار گزار خطے کی مکمل نگرانی کیسے ممکن ہے؟ ضروری ہے کہ امریکہ سمیت تمام ممالک محض الزام تراشی کی بجائے اس حقیقت کا ادراک کریں تاکہ مسئلے کے حل کے لئے مشترکہ جدوجہد کی جا سکے۔ دوسری جانب پاکستان کے لئے بھی ضروری ہے کہ حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لے اور کوشش کرے کہ ایسی کوئی صورت حال پیدا نہ ہو جو دونوںممالک کے باہمی تعلقات میں بگاڑ کا سبب بنے۔