مسلم لیگ کا اتحاد وقت کی ضرورت
پاکستان کاحصول مسلم لیگ کا ایک بڑا کارنامہ تھا۔یہ مسلم لیگ کی خوش قسمتی تھی کہ اسے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بے مثال قیادت میسر آئی۔قائداعظمؒ کی قیادت میں مسلمانان برصغیر یک جان اور یک زبان ہو گئے، جس کے نتیجے میں تاجِ برطانیہ نے گھٹنے ٹیک دیئے، بلکہ کانگریس کی سازشیں بھی ناکام ہو گئیں اور بالآخر پاکستان کا قیام عمل میں آیا.... پاکستان ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں قائم ہوا۔اس جمہوری عمل پر وائسرئے ہند، کانگریس اور مسلم لیگ، تینوں نے اتفاق کیا تھا۔
1946ءکے انتخابات کے نتیجے میں جن علاقوں میں مسلم لیگ نے اکثریت حاصل کی، وہ پاکستان میں شامل ہوئے اور جن میں کانگریس کو برتری ملی، وہ بھارت کا حصہ بنے۔قیام پاکستان کے اس پس منظر کو دہرانے کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ مسلم لیگ بنیادی طور پر ایک سیاسی اور جمہوری جماعت تھی اور جمہوری عمل پر غیر متزلزل یقین رکھتی تھی، لیکن قائداعظم ؒکی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس کا رخ صحیح سمت میں قائم نہ رہ سکا۔چاہیے تو یہ تھا کہ مسلم لیگ کے اندر بھی انتخابات کا عمل جاری رہتا،قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد جماعت میں جو سیاسی خلاءپیدا ہو گیا تھا اسے انتخابی عمل کے ذریعے پورا کیا جاتا۔ملک میں بھی 1952ءیا 1953ءمیں نئے انتخابات کرائے جاتے، مگر ایسا نہ ہوا۔وہ جاگیردار اور سرمایہ دار کانگریس کی معاشی پالیسیوں سے گھبرا کر مسلم لیگ میں آ گئے تھے اور 1946ءکے انتخابات کے باعث دستور ساز اسمبلی کے رکن بن گئے تھے۔ مسلم لیگ ہی نہیں، پاکستان کے سیاہ و سفید کے بھی مالک بن گئے۔1958ءمیں مارشل لاءلگنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ملک کا سیاسی ڈھانچہ نہایت کمزور ہو گیا تھا۔1946ءکے انتخابات کو ہی آخری اور حتمی الیکشن سمجھا گیا۔ایک معذور شخص غلام محمد کو ملک کا گورنر جنرل بنا دیا گیا، وزیراعظم آئے روز بدلنے لگے۔اس صورت حال میں فوج نے براہ راست اقتدار سنبھال لیا۔
یہ درست ہے کہ مارشل لاءکسی مسئلے کا حل نہیں، فوج کو سیاسی نظام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔اس کا کام ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ مجھے بھی اس نظریے سے مکمل اتفاق ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ فوج اس وقت اقتدار میں آتی ہے ،جب ملک کا سیاسی ڈھانچہ مفلوج ہو جاتا ہے اور سیاسی قوتیں ملکی نظام میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتیں۔ مسلم لیگ کو ہی دیکھ لیجئے، جس جماعت نے پاکستان بنایا، وہ دس برس میں اس قدر کمزور ہو گئی کہ بیساکھیاں ڈھونڈنے لگی۔کبھی جاگیرداروں کی آلہ کار بنی اور کبھی مارشل لاءکے سائے میں سستانے لگی۔جنرل ایوب خان کے اقتدار کو سہارا مسلم لیگیوں نے ہی دیا تھا۔یہ الگ بات کہ اس وقت تک مسلم لیگ کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ہر بڑے مسلم لیگی نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا کر اذان دینا شروع کر دی تھی۔کاش مسلم لیگ حصوں بخروں میں تقسیم ہونے کی بجائے متحد ہوجاتی۔اگر ایسا ہوتا تو نہ مارشل لاءلگتا، نہ عوامی لیگ بنتی، نہ علاقائی اور لسانی نفرتیں جنم لیتیں اور نہ پاکستان دولخت ہوتا۔
یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں میں اتحاد کی ضرورت تو ہر دور میں محسوس کی جاتی رہی ہے، لیکن اس پر عمل کبھی نہیں ہو سکا۔مختلف ادوار میں مسلم لیگی دھڑوں کو غیر فطری طور پر تو اکٹھا کیا گیا، لیکن کوئی ایسا فطری اتحاد عمل میں نہ آ سکا جو سائبان کے بغیر بھی قائم رہتا۔ مسلم لیگ آج بھی مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔اس کا اتحاد ملک و قوم کی ضرورت ہے، لیکن مسئلہ قیادت کا ہے۔کیا آج مختلف دھڑوں کے رہنما اپنی ذاتی انا کو چھوڑ کر کسی ایک قیادت پر متفق ہو سکتے ہیں یا وہ اتفاق رائے سے مسلم لیگ کے عہدے آپس میں بانٹ کر ملک و قوم کی ترقی کو اپنا نصب العین بنا سکتے ہیں۔بظاہر یہ ایک نہایت مشکل کام ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو شاید ہم ملکی و قومی مسائل کو حل کرنے میں اس طرح سے کامیاب نہ ہو سکیں، جس کا خواب قائداعظم ؒنے دیکھا تھا۔