جانور

جانور
 جانور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خبر دار! آپ کسی کو کافر نہیں کہہ سکتے ،مگر جانور کہہ سکتے ہیں۔ کیا یہ کوئی اتفاق ہے کہ وزیر داخلہ جس وقت قوم کو یہ باور کرارہے تھے کہ نفرت انگیز تقاریر اور کسی کو کافر قرار دینے پراب حکومت کارروائی کرے گی ٹھیک اُسی وقت ایک دوسرے وفاقی وزیر الطاف حسین کا خطاب سننے والوں کو ’’جانور ‘‘کہہ رہے تھے۔نفرت اور کیا ہوتی ہے؟کسی کو کافر قرار دینے سے، جو نتائج برآمد ہوتے ہیں کیا جانور قرار دینے سے نہیں ہوتے؟ یہ لیجئے ! حکومت کا امتحان شروع ہو گیا ۔ اب وہ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے؟


زبان انسان کے اندرون کا ایک اشتہار ہوتی ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ جب تک بات منہ میں بند رہتی ہے تب تک اُس کے مالک آپ ہیں، مگر یہ مُنہ سے نکل جائے تو پھر وہ آپ کی مالک بن جاتی ہے۔ اِسی لئے حکیم لقمان نے نصیحت کی کہ ’’جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو‘‘۔ لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ کی گفتگو حیران کن نہیں۔ داغستان کا نامور ادیب لکھتا ہے کہ ’’بچہ دوسال میں بولنا سیکھ جاتا ہے، مگر انسان ساٹھ سال کے بعد کہیں یہ جان پاتا ہے کہ زبان کیسے بند رکھی جائے۔‘‘ ریٹائرد جنرل 16جون 1942ء کو پیدا ہوئے تھے۔ اس حساب سے اب وہ 73 برس کے ہوتے ہیں، مگر ابھی تک وہ نہیں جان پائے کہ زبان کیسے بند رکھی جائے؟ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ جس معاشرے میں ہم آزادئ رائے کو ایک خاص سماجی فضا میں پروان چڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہاں اس نو ع کے کلمات سننے کو ملیں گے۔ اس طرح خود الطاف حسین کی گفتگو کے خلاف حکومت اپنے مقدمے کا دفاع کیسے کر پائے گی؟


وفاقی وزیر کی گفتگو کے بعد ڈارون کی کتابیں ازسرنو جھاڑنی پڑ جاتی ہے تاکہ اُن کے الفاظ سے پیدا ہونے والے ردِ عمل پر قابو پایا جاسکے۔ ڈارون کی ایک کتاب ’’اصلِ انواع ‘‘ 1859ء میں سامنے آئی، جس میں موصوف نے یہ اندازا لگایا کہ اُن کے بزرگ توانسان نہیں جانور ہیں۔ ابھی حضرتِ انسان اس جھٹکے کو برداشت نہ کر پایا تھا کہ انہوں نے جانوروں کا شجرہ تک تخلیق کرلیا۔ اُن کی کتاب ’’دی ڈیسنٹ آف مین‘‘ انسان کے اسی اُترائی سلسلۂ نسب کی داستان ہے۔ موصوف نے یہ شجرۂ انسانی1871ء میں کاڑھا تھا۔ انہوں نے سائنسی توجیحات کی خوب گوٹا کناری کی، مگر انسان اپنے شرف سے کبھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوا۔ زبانوں کے محقّقین کے لئے یہ ایک موضوع ہے کہ انسانوں نے کب جانور کہنے پر بُرا منانا شروع کیا؟ اُنہیں کب یہ لفظ ایک گالی لگنے لگا؟ کہیں اس کے ڈانڈے ڈارون کی ’’جانوری تحقیق ‘‘ سے تو نہیں جاملتے۔ سُراغ کچھ بھی لگے اور ہاتھ جو بھی آئے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر میٹھے سمندر میں اِسے تھوکا جائے تو وہ کھارا نہیں زہریلا ہو جائے۔ یہ کیسی زبان ہے جو سیاست دانوں نے شعار کر رکھی ہے، اور یہی وہ انگڑ کھنگڑ ہیں جن کی اَنگش بَنگش پر انحصار کرکے یہ قوم سیاسی و تمدنی بالادستی کا خواب دیکھتی ہے۔ ریاست کے تعلق داروں میں اپنے ناقابل تقسیم حقِ اقتدار کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے۔


ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا ، تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت کو حقارت کے الفاظ کا ہدف بنا لیا تھا۔وہ اُنہیں اوئے، ابے اورتبے سے مخاطب کرتے تھے۔ تب چوہدری نثار سے لے کر اسحاق ڈار تک اور خواجہ سعد رفیق سے لے کر خواجہ آصف تک اُن سے شائستگی کاتقا ضا کرتے پھرتے تھے۔ انتخابی نتائج پر عدالتی کمیشن کے فیصلے نے اُن کی اُکھڑی ہوئی سانسوں کو قدرے بحال کیا تو وزیراعظم میاں نوازشریف نے قوم کے سامنے اپنی چہرہ دکھائی کی ۔یاد کیجیے ! تب میاں صاحب اپنے خطاب میں عمران خان کی اُس ملامت آمیز زبان وبیان کا شکوہ کئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔ اب لگتا ہے کہ یہ لوگ اِسی سلوک کے مستحق تھے۔ یہ ایک دوسرے کے مقابل، مگر ایک جیسے لوگ ہیں۔ یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ جب بھی مسلم لیگ(ن) کی حکومت آتی ہے یہ سیاسی اور معاشرتی سطح پر عجیب طرح کے روّیوں کو جنم دینے کا موجب بنتی ہے۔ تاریخ میں جانے کی گنجائش نہیں ، مگر ان کا تصورِ حکومت چند سڑکوں کی تعمیر اور معاشرتی وسیاسی تارپود کی تخریب سے آگے کبھی بڑھ نہیں سکا۔ افسوس انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔


کراچی میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کے اس لفظ نے ایک ایسی قیامت برپا کردی ہے جسے کسی صور پھونکے جانے جیسے شور کی ضرورت ہی نہیں۔ اس طرح کے متعصبانہ الفاظ کراچی کو دائروں کامسافر بنا دیتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو اب اپنی قبر میں سوتی ہیں ، کبھی اُردو بولنے والوں کو انہوں نے پارلیمنٹ میں ’’بزدل چوہے‘‘ کہا تھا۔ پیپلز پارٹی آج بھی کراچی میں اس کا بُھگتان دیتی ہے۔ اُردو بولنے والے پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے تب تاسف سے اس خاکسار کو کہاتھا کہ ایم کیو ایم کا فائدہ تو ناپا جاسکتا ہے، مگر ہمیں پہنچنے والا نقصان ناقابلِ اندازا ہے۔ ایم کیوایم کا وہ مشہورِ زمانہ ورقہ (پمفلٹ) یادداشتوں میں اُجاگر کیجئے جس میں وہ شناخت (؟)کے بحران میں خود کو پڑنے والی گالیوں کا ذکر کرتے ہیں ۔وہ ’’مکڑ‘‘کا لفظ تب دائرۂ تحریر میں لائے تھے، جو اہلِ کراچی کے عمومی تجربے میں تھا۔ جب اہلِ کراچی اپنا ہاتھ چھڑانے کے دور میں داخل ہوتے ہیں تو عبدالقادر بلوچ ایسا کوئی کردار اچانک طلوع ہوتا ہے اور سہمے لوگوں کو مزید ڈراوا دے کر اُنہیں ایم کیوایم کی طرف ہانکا لگا جاتا ہے۔ حلقہ 246 کی انتخابی مہم میں تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے اگر متعصبانہ زبان اختیار نہ کی ہوتی تو نتائج میں ہار جیت کا تناسب اس قدر رسواکن نہ ہوتا۔ عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں کے بعض الفاظ ایسے تھے، جس نے ایم کیوایم کے لئے تعصب کو پھر بیدار کر دیا تھا۔ پتا نہیں کیوں ایم کیوایم ایسے لوگوں کے خلاف احتجاج کرتی ہے اُنہیں شکریے کے خطو ط نہیں لکھتی۔ مقتدر حلقوں کویہ بات ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی کہ اردو بولنے والے جب ردِ عمل کی کسی لہر کو سر اُٹھاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ایم کیوایم سے واپس جُڑ جاتے ہیں یہ اُن کا اضطراری انتخاب ہے ، اختیاری نہیں۔ اگر عبدالقادر بلوچ جانور کا لفظ استعمال کرتے ہوئے ذرا سی انسانی عقل سے کام لیتے تو وہ خاموشی کی فضیلت کو سمجھ لیتے اور چُپ رہتے۔

مزید :

کالم -