اسلامی معاشرے میں جامعات کا کردار
’’اسلامی معاشرے میں جامعات کا کردار‘‘ جیسے عنوان کے چناؤ کی نسبت اس احساس پر مبنی ہے کہ اسلامی فکریااسلامی طرز فکر اور معاشرتی اور سماجی بیانیوں میں ایک بُعد پیدا ہو چکا ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ فکر و دانش کے حلقوں میں اس بُعد پر نہ صرف گفتگو کی جائے بلکہ معاصر بیانیوں (Narratives) میں اس بُعد کے اسباب اور اسے کم کرنے کے طریق کار پر بھی غوروفکر کیا جائے۔ سماجی حرکیات پر غوروفکر سماجیات کا ایک بنیادی موضوع ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات کا مرکزی نقطہ فرد اور معاشرے کے تعلق ،فرد کی آزادی اور سماجی ذمہ داری کے باہمی ربط ،انسانی حقوق، فرد اور ریاست کے درمیان تعلق اور اسکی سماجی اور معاشی اور سیاسی جہتوں پر غوروفکر ہے۔ مغربی فکر میں ان موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے جو تناظر اختیار کیا جاتا ہے اس میں مذہب کو ایک بنیادی عامل کے طور پر بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ تاہم پاکستانی معاشرے کے حوالے سے یہ بحثیں عموماً کار آمد ثابت نہیں ہوتیں کیونکہ پاکستانی معاشرے میں مذہبی عنصر ایک ناگزیر حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ جامعات میں پڑھایا جانے والا Social Sciences کا نصاب اس حوالے سے مکمل راہنمائی فراہم نہیں کر پاتا۔
اسلام اور سماج کے تعلق پر بات کرنے کیلئے ایک بنیادی نکتہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ بطور مذہب اسلام کا تناظر اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اسلام میں دین اور دنیا کی وہ تقسیم نہیں پائی جاتی جو مذہبی بیانیہ کا ایک بنیادی عنصر سمجھا جاتا ہے۔ مذہب کے بارے عمومی موقف یہ ہے کہ اس کا موضوع فرد کی نجات ہے اور اس اعتبار سے یہ بندے اور خدا کے انفرادی تعلق کے بارے میں راہنمائی کرتا ہے۔ لیکن اسلام جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ انسانی زندگی کو دنیا اور آخرت کے خانوں میں تقسیم کر کے صرف آخرت کو اپنا موضوع نہیں بناتا بلکہ جیسا کہ یہ قرآنی دعا ہمارے شعور کا لازمی حصہ ہے کہ ‘رَبنا اَ تِنا فی الدنیا حَسَنَۃ و فی الاخِرَۃِ حَسَنَۃ (اے اللہ ،ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما۔)
اس طرح اسلام میں دنیا اور آخرت کی بھلائی کا جامع تصور موجود ہے۔ اسلام ان معنوں میں محض مذہب نہیں بلکہ دین ہے کہ یہ انسانی زندگی کے سارے گوشوں کے بارے میں بھرپور راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام محض فرد کی فکری ،ایمانی اور اخلاقی راہنمائی نہیں کرتا بلکہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی اصول بھی فراہم کرتا ہے جن کی روشنی میں ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کی جا سکتی ہے۔ اسلام کی اسی جامع راہنمائی کا تقاضا ہے کہ فرد، معاشرے اور بین الاقوامی برادری کے تناظر میں اسلامی موقف کو جانا جائے اور معاصر بیانیوں میں اس کی حیثیت کو متعین کیا جائے۔ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہماری سماجی حرکیات میں اسلامی فکر ایک موثر اور اخلاقی عامل کے طور پر پوری طرح فعال نہیں ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ بنیادی طور پر ایک ایسے مذہب اور دین کے پیروکار ہوتے ہوئے جو دین اور دنیا کی دوئی کو تسلیم نہیں کرتا ہم نے علم کوبھی دینی اور دنیاوی خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس کا سب سے تکلیف دہ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ جدید تعلیم یافتہ افراد اور مذہبی علوم کے ماہرین کے درمیان ابلاغ کا شدید فقدان ہے۔ معاشرے کے ایک عام آدمی کا احساس یہ ہے کہ وہ نجات کے لئے اہل دین سے رجوع کرتا ہے اور دنیاوی کامیابی کے دنیاوی علوم اور اہل دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
اس تقسیم نے ہمارے معاشرے کے تانے بانے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اسی طرز فکر نے ایسے ثقافتی اور سماجی جزیرے پیدا کیے ہیں جو آپس میں ربط اور ابلاغ کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اکیسویں صدی میں پاکستان کو درپیش چیلنجز کی جڑیں بھی اس تقسیم میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ آج ہمیں انتہاء پسندی ،مذہبی ،منافرت اور لسانی اور علاقائی عصبیتوں کے مسائل درپیش ہیں۔ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کیلئے صحتمند مکالمہ ایک لازمی ضرورت ہے اور یہ مکالمہ کی شرائط میں شامل ہے کہ مکالمہ کے فریقین کے درمیان کوئی نہ کوئی نکتہ مشترک موجود ہو۔ یہ نکتہ اشتراک وہ آگہی اور ابلاغ ہے جو بامعنی مکالمہ کو ممکن بناتا ہے۔میرے خیال میں جامعات کا بنیادی وظیفہ ہی خیال افروزی اور فکر انگیزی ہے۔ جامعات اعلیٰ تعلیم کے وہ ادارے ہیں جہاں افکار کی تشکیل ہوتی ہے اور جہاں سے معاشرے کو فکری قیادت فراہم کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ایک انتہائی اہم موضوع یعنی اسلام اور سماج کے باہمی تعلق پر ہمارے ہاں جامعات، دانش گاہوں ،درس گاہوں اور سنجیدہ حلقوں میں بہت کم گفتگو کی گئی ہے اور اس موضوع کو تخلیقی انداز میں ابھی تک نہیں دیکھا گیا۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام اور سماج کے موضوع پر مغربی تعلیمی اداروں میں تحقیق و تفتیش کا سلسلہ مدتوں سے جاری ہے اور اکیسویں صدی میں اس حوالے سے خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ چنانچہ میرے پیش نظر مغربی مفکرین کی کوششوں کی ایک فہرست ہے جو اس باب میں ہماری توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے۔ مسلم معاشروں میں ہونے والی سماجی تبدیلیوں ،اس کی ساخت ،اسلام کے تناظر میں معاشرتی مسائل اور ان کو حل کرنے کی سعی پر مغرب میں بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔ جو ایک خاص تناظر میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر مسلم معاشرے کی ساخت پر تاریخی تناظر میں ایک دلچسپ تجزیہ Muslim Networks: from haj to hiphop کے نام سے 2005ء میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولین سے شائع ہوا ہے۔ میریم کوکی (MiriamCooke) اور Bruce B. Lawrence کی ادارت میں شائع ہونے والی اس کتاب میں اسلامی معاشرے کی تاریخی ساخت، اسکی cosmopolition نوعیت اور معاصر دنیا میں اسکی بدلتی ہوئی صورتوں کے بارے میں محققین کے مضامین شامل ہیں۔ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ تاریخی اعتبار سے مسلم معاشرے کی آفاقی ساخت میں درسگاہ، سرائے اور خانقاہ کا بنیادی کردار تھا اور مہمان نوازی مسلم معاشرے کا وہ امتیازی وصف تھا جس کی بنا پر کوئی صاحب علم مسلمہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک خالی جیب رہائش اور خوراک کی تشویش کے بغیر سفر کر سکتا تھا اور مسلمانوں کی عبادت حج اس سفر کو ایک مرکزیت عطا کرتی تھی اور آج بھی مکہ اسلامی آفاقی معاشرے کے مرکز کے طور پر مسلم معاشرے کی آفاقی فطرت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تاہم یہ بات اہم ہے کہ مغرب میں اسلام اور سماج کے تعلق پر تحقیقKnow to Conquer یا Know to Control کا نو آبادیاتی پہلو لیے ہوئے ہے۔ مغربی اداروں میں اسلام اور اسلامی معاشرے کو ایک قابل حل مسئلہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس تحقیق کا مقصد اسلامی سماجیات کی حرکیات کو جان کر مسلم معاشروں کے بارے میں معلومات کاایک ایسا ذخیرہ مہیا کرنا ہوتا ہے۔ جو پالیسی سازی اور پیش بینی میں معاون ثابت ہو سکے۔ اسکا اندازہ ان موضوعات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جو مغربی اداروں میں ہونے والی تحقیق کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں۔ مثلاً 2003ء میں انڈیانا یونیورسٹی سے شائع ہونیوالی ایک کتاب کا موضوع ہے۔ Islamic Activism: A Social movement theory approach چونکہ مغرب میں Islamic Activism کوایک عالمی مسئلہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سو یہ مطالعہ مغربی پالیسی سازوں کو اس حوالے سے راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسی نوعیت کی ایک اور کتاب 2006ء میںBrill کی طرف سے Social , economic and political studies of the middle east and asia سیریز کے تحت Speaking for Islam: Religious Authorities in Muslim Societies کے عنوان کے تحت اسلامی معاشروں میں مذہبی استناد کی نوعیت پربحث کرتی ہے۔ان تفصیلات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اندازہ لگا سکیں کہ کس طرح متنوع پہلوؤں سے مسلم معاشرے کی ساخت اور حرکیات کے بارے میں مغربی جامعات میں مطالعات ہور ہے ہیں۔ مگر ہماری شعب�ۂ ہائے علوم اسلامیہ فعال متحرک اور محققانہ نہیں۔
اس تناظر میں ہماری یونیورسٹیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اسلام اور سماج کے باہمی تعلق کے بارے میں تحقیق و جستجو کے عمل میں شریک ہوں۔ہمارا تناظر Know to Improve، Know to Manase اور Know to Survive ہونا چاہئے۔ نو آبادیاتی تناظر میں ہونے والی یہ تحقیقات ہمارے لیے Food for thought تو ہو سکتی ہیں لیکن بہت تیزی سے پیچیدہ ہوتی ہوئی دنیا میں ہمارے مسائل کا خاطر خواہ حل پیش کرنے میں ہماری معاونت سے قاصر ہیں۔ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنے مجتہدانہ مزاج کی بناء پر آفاقیت کے حامل دین کے سماجی پہلوؤں پر تحقیق و تحریر کا فریضہ خودسرانجام دینا ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اسلام کے معاشرتی اصولوں کی بازیافت اور عصری تناظر میں ان کی تشکیل جدید کے ذریعے ہم اپنے تمام مسائل کا حل اسلام کے آفاقی اصولوں میں تلاش کر سکتے ہیں۔ جس طرح علامہ اقبالؒ نے الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اقبال نے ہمیں روح عصر سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اسلام کے اُصولِ حرکت سے متعارف کروایا تھا۔ ہمیں غزالی، ابنِ خلدون، شاہ ولی اللہ، اقبال اور دیگر مسلم مفکرین کے پیش کردہ افکار و نظریات کی روشنی میں تخلیقی انداز میں عصر حاضر کے مسائل پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مغربی جامعات میں ہونے والے کام تک ہمارے محققین کی رسائی یقینی بنائی جائے اور اسلامی علوم کے ماہرین اور مسلم اکابرین کے افکار کو جامعات میں تحقیق کرنے والے ماہرین تک پہنچایا جائے۔ اگرچہ بڑے مسلم ماہرین سماجیات اور سیاسی مفکرین کے تراجم مغربی جامعات میں کیے جا چکے ہیں لیکن یہ تراجم بھی اپنے اندر نو آبادیاتی اسلوب اور اثرات رکھتے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں موجود مذہبی علوم کے روایتی ماہرین اور جامعات کے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان ابلاغ کو موثر بنایا جائے اور بامعنی مکالمے کے عملِ مسلسل کو یقینی بناتے ہوئے اسلام اور سماج کے تعلق پر ایسے بیانیے تشکیل دےئے جائیں جو ہمارے معاشروں میں موجود انتہاء پسندی اور نفرت کا خاتمہ کرتے ہوئے موثر اور بامعنی مکالمہ جاری کر سکیں۔