لاہور ہائیکورٹ بار کی خاتون جج کیخلاف قرارداد منظور، سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا اعلان

لاہور ہائیکورٹ بار کی خاتون جج کیخلاف قرارداد منظور، سپریم جوڈیشل کونسل سے ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(نامہ نگار خصوصی )لاہور ہائی کورٹ بار نے عدالت عالیہ کی ایک خاتون جج کے خلاف قرار داد منظور کرتے ہوئے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ا س سلسلے میں ہائی کور ٹ بار کے صدر رانا ضیاء عبدالرحمن کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس سے اے کے ڈوگر ،بیرسٹر احتشام امیر الدین، حافظ عبدالرحمن انصاری اورتنویر احمد چودھری ایڈووکیٹس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی چوکیدار سے تلخ کلامی ، ٹریفک پولیس کے سپاہی سے بدکلامی کرنے اور دیگر ایسے معمولی الزامات پر لاہور ہائیکورٹ کے جج صاحبان کو سپریم جوڈیشل کونسل نوٹس دے دیتی ہے تو وکلاء سے بد کلامی، بد تمیزی کرنے پر سپریم جوڈیشل کونسل کیوں ایکشن نہیں لیتی۔ جنرل ہاؤس میں موجود سینئر وکلاء نے دوران اجلاس تجویز پیش کی کہ موجودہ قرارداد جنرل ہاؤس کی منظوری کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائی جائے جس پر محمد انس غازی سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے اضافی پیراگراف اور تجاویز کے ساتھ قرارداد ہاؤس میں پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ہائی کورٹ بار رانا ضیاء عبدالرحمن نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب کو بے بس نہیں ہونا چاہئے۔ میڈیا پر تقاریر اور بیانات دینے سے کام نہیں چلتے بلکہ عملی طور پر کچھ کر کے دکھانے سے کام بنتا ہے۔ انسان اپنے رویہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر جج صاحبان کو اللہ تعالیٰ نے بلند رتبہ دیا ہے تو انہیں بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ خاتون جج صاحبہ کو نارمل انسان کی طرح پیش آنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری طرف سے جج صاحبان کے احترام میں کبھی کمی نہیں ہوئی اور نا ہو گی۔ انہیں بھی چاہئے کہ کالے کوٹ والوں کو چھوٹا نہ سمجھیں یہ بڑے لوگ ہیں جو جج صاحبان مسلسل وکلاء سے غیر مہذب رویہ اپناتے ہیں اور بھری عدالت میں اپنی شان اور مرتبے کے منافی وکلاء کے بارے میں ریمارکس دیتے ہیں ،ان کا نفسیاتی معائنہ کروایا جائے اور اگر پھر بھی وہ اپنے غصے اور غیر مہذب رویے پر قابو نہ رکھ سکیں تو انہیں منصب سے فارغ کیا جائے۔ اجلاس میں جو قرارداد منظور کی گئی وہ سردار آفتاب احمد ورک ایڈووکیٹ کی طرف سے پیش کی گئی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ عدالت عالیہ کی جسٹس مس عالیہ نیلم نے وکلاء کی ہڑتال کے باوجود اس کیس کی سماعت ملتوی نہیں کی جس میں ہائی کورٹ بار کے صدر رانا ضیاء عبدالرحمن نے پیش ہونا تھا ۔قرار داد میں کہا گیا ہے کہ جسٹس عالیہ نیلم کو مردان کے سانحہ کی بابت ہائی کورٹ بار کے اجلاس میں رانا ضیاء عبدالرحمن کی مصروفیت اور پاکستان بار کونسل کی ہڑتال کی کال سے متعلق بتایا گیا جبکہ میں نے بطور مدعی یہ بھی عرض کی کہ میں ابھی اس کیس میں بحث کر دیتا ہوں لیکن محترمہ جسٹس صاحبہ نے بحث سننے کی بجائے یکطرفہ طور پر ضمانت لیتے ہوئے بڑے غیر مہذبانہ اندازمیں مجھے روسٹرم چھوڑنے کا کہا میں بار ہا کہتا رہا کہ پاکستان بار کونسل کی ہڑتال کی کال کی وجہ سے لاہور ہائیکورٹ میں بھی آج گیارہ بجے کے بعد ویسے بھی ہڑتال ہو چکی ہے لیکن محترمہ جسٹس عالیہ نیلم صاحبہ نے انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اور وکلاء کی تذلیل کرتے ہوئے مجھے بغیر سنے میرے حق سے محروم کر کے میرے ساتھ سخت زیادتی کی ہے۔

مزید :

صفحہ آخر -