” یہ کام تمہیں ہر گز نہیں کرنے دیں گے“ اوباما نے چین کو خطرناک دھمکی دے دی
لاؤس(مانیٹرنگ ڈیسک)مریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ چین کو بحیرہ جنوبی چین پر اپنے دعوے سے متعلق عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے پر عمل کرنا ہوگا۔ لاؤس میںیسوسی ایشن آف ساو¿تھ ایشین نیشنز(ASEAN ) سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے واضح کیا کہ چین کی جانب سے فیصلے سے انحراف کشیدگی بڑھا رہا ہے جو کہ خطے کے امن کےلئے بھی بڑا خطرہ ہے ۔ چین کی جانب سے عالمی عدالت کا فیصلہ رواں سال جولائی میں آنے والا فیصلہ ماننے سے انکار کے بعد دو بڑی طاقتوں میں فوجی تصادم کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں ۔
امریکی صدر نے اپنے خطاب میں عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے سے متعلق کہا کہ اس نے خطے میں سمندری حقوق کو واضح کیا ہے اور چین بحیرہ جنوبی چین پر اپنے بے جا دعوے کی وجہ سے عدالتی فیصلے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔انھوں نے کہا کہ اس صورتحال سے علاقائی کشیدگی بڑھ رہی ہے جو کہ خطے کی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہے۔باراک اوباما نے ایشیائی رہنماؤں سے خطاب میں کہا کہ وہ اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو تسلیم کرتے ہیں اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اس پر کیسے تعمیری بات چیت کی جائے، مل کر آگے بڑھ کر کشیدگی کو ختم کیا جائے اور سفارتکاری اور استحکام کو بڑھایا جائے۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل چین پر ’ذمہ داری‘ ہے،باراک اوباما نے چین پر زور دیا کہ وہ بھی صورتحال سے نکلنے کے لئے مثبت رد عمل دے۔
مزید پڑھیں :ناکام بغاوت کے بعد کریک ڈاون کے دوران غلطیاں ہوئیں، ترک وزیراعظم کا اعتراف
خیال رہے کہ چین امریکہ پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ اپنی فوج کی فضائی اور بحری سرگرمیوں سے جنوبی بحیرہ چین کے تنازعے کو عسکری رنگ دے رہا ہے۔ خیال رہے کہ چین بحیرہجنوبی چین کے پورے خطے پر اپنا حق جتاتا ہے جو دیگر ایشیائی ممالک ویت نام اور فلپائن کے دعووں سے متصادم ہے۔ان ممالک کا الزام ہے کہ چین نے اس علاقے میں مصنوعی جزیرہ تیار کرنے کے لیے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور اسے عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ اس کا سمندر میں مصنوعی جزیرے اور اس پر تعمیرات کا مقصد شہریوں کے لیے سہولیات پیدا کرنا ہے لیکن دوسرے ممالک اس کی ان کوششوں کو فوجی مقاصد کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔فلپائن کی حکومت بحیرہ جنوبی چین پر چین کے دعوے کے خلاف مقدمہ بین الاقوامی ثالثی عدالت میں لے گئی تھی تاہم چین نے اس حوالے سے اس ثالثی عدالت کے اختیار کو مسترد کرتے ہوئے اس کے سامنے پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔رواں برس جولائی میں عالمی ثالثی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جنوبی بحیرہ چین سالانہ طور پر 50 کھرب کی بین الاقوامی تجارتی نقل و حمل کی گزرگاہ ہے اور اس کے پانیوں پر چین کے دعوے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین کی جانب سے حالیہ برسوں میں اس علاقے میں بڑے پیمانے پر تعمیرات بھی اس کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں۔چین نے عالمی ثالثی عدالت کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے محض رد ی کا ایک ٹکڑا قرار دیا تھا۔ایسوسی ایشن آف ساو¿تھ ایشین نیشنز(ASEAN ) جس میں فلپائن، ویت نام، ملائشیا اور برونائی بھی شامل ہیں کے اجلاس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں بحیرہ جنوبی چین کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔