اسلام آباد ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ ۔۔۔ناموس رسالتﷺ (22)
جدیدمحققین نے اسلامی معاشرے میں ابلاغ کے جواہم مقاصد ، حدود اور آداب بیان کئے ہیں ان کے مطابق میڈیا کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ ایک ایسا ذمہ دار ادارہ ہے جو احترام انسانیت کی تلقین، آزادی و ذمہ داری کے اشتراک کے واضح تصور، معاشرے میں مثبت باتوں کے فروغ ، عریانی اورفحاشی کے انسداد اور سدباب، حق اور انصاف کی ادائیگی، ترویج اور رسائی میں معاونت ، معاشرتی اتحاد و تنظیم کے قیام، صحت اور صفائی کی ترغیب، عوامی تعلیم اور تربیت کے اقدامات، اظہار خیال میں شائستگی اوربرداشت کی ترویج، تحریف، غلط بیانی اور پراپیگنڈہ کی ممانعت اورحوصلہ شکنی، نفرت انگیزی و دل آزاری سے گریز کی تربیت، لوگوں کے نجی معمولات میں تجسس اوردخل اندازی سے گریز کے رویے، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی نگہداشت اوررائے عامہ کی ہمواری، صالح اور پُرامن معاشرے کے قیام میں ریاست اورحکومت کی معاونت، اُمت مسلمہ میں اخوت اوریکجہتی کے قیام، بین الاقوامی معمولات میں مثبت،تعمیری اورصلح جوئیانہ موقف کے اظہاراورترویج اور عوام کو مثبت اور تعمیری تفریح کی فراہمی جیسے انتہائی اہم فرا ئض سے عبارت ہے۔
17۔یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ جدید معاشرے اورتہذیب کا ایک جزولاینفک ہیں۔ یہ بھی ایک بدیہی حقیقت کہ ذرائع ابلاغ کسی بھی معاشرے کے اجتماعی مزاج کوبنانے اور بگاڑنے میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔ موجودہ دورمیں ذرائع ابلاغ نے انسانی زندگی کے ہرشعبے کو متاثرکیا ہے اور اب ان کی حیثیت معاشرے کے ایک لازمی جزواور اہم ترجمان کی ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اورسوشل میڈیا نہ صرف قومی اوربین الاقوامی پالیسیوں کے اظہار اور تعارف کا ایک اہم ذریعہ ہے بلکہ اب تو ان کی قبولیت اور عدم قبولیت کے حوالے سے ایک اہم عنصر تصور کیا جاتاہے۔ اس لئے کوئی ملک اورقوم ذرائع ابلاغ کے درست اور ذمہ دارانہ استعمال کے عصر حاضر کے اہم چیلنج سے صرف نظر نہیں کرسکتی۔بدقسمتی سے پاکستان میں میڈیا کے مثبت ، ذمہ دارانہ اور قومی خواہشات کے ہم آہنگ استعمال کے حوالے سے کوئی واضح اورمناسب قانون سازی موجود نہ ہے۔ میڈیا کو دستور پاکستان میں دی گئی ہدایات اور ایک اسلامی معاشرے کی ضروریات،جوکہ دستورمیں واضح طورپربیان کی گئی ہیں، سے ہم آہنگ کرنے میں شدید غفلت ،لاپرواہی اور غیرذمہ داری کامظاہرہ کیاگیاہے۔یہاں یہ امر واضح کرنا ضروری ہے کہ عدالت عظمیٰ کی بھرپور کاوش اور احکامات کی روشنی میں 2005ء میں الیکٹرانک میڈیا کے لئے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا، لیکن بد قسمتی سے چینلز کے مالکان مالی منفعت اور درجہ بندی کی دوڑ میں نہ آئینی حدود کی پابندی کرتے ہیں اور نہ ضابطہ اخلاق کو ہی خاطر میں لاتے ہیں پیمرا عملی طور پر بے بس نظر آتا ہے چونکہ اُس کی جانب سے تمام سنجیدہ اور پُرعزم کاوشیں غیر موثر کر دی جاتی ہیں لیکن سوشل میڈیا پر بے حیائی کا ایک سیلاب ہے جس کے آگے آئین میں دی گئی حدود کے مطابق بندباندھنے کے لئے حکومتی سطح پر مناسب اقدامات نہ کئے گئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مقدس شخصیات کی توہین کاسلسلہ اپنے عروج پر ہے اور دشمنانِ پاکستان واسلام اس ذریعہ ابلاغ کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ یہ عدالت سمجھتی ہے کہ ذرائع ابلاغ کی بنیادی ذمہ داری قوم کے اخلاق و کردار کی اصلاح ہے،ملک کی تعمیرو ترقی اور دستور پاکستان میں متعین کی گئی منزل کی طرف پیش قدمی اس کا اہم فریضہ ہے۔ملک کے ذرائع ابلاغ دستور پاکستان میں دی گئی عوامی خواہشات اور امنگوں کے نہ صرف ترجمان ہونے چاہئیں بلکہ اس مملکت کے نظریہ اور مقصد کے تابع ہونے چاہئیں۔ ذرائع ابلاغ ملک و قوم کے لئے ایک امین کا درجہ رکھتے ہیں اور امانت کی ذمہ داریوں کو ملحوظ رکھنا ذرائع ابلاغ کا اہم قومی و دستوری فریضہ ہے۔ دستور پاکستان کے مطابق پاکستانی معاشرے میں فرد، ریاست اور اداروں کا سرچشمہ ہدایت قرآن و سنت ہیں اور وہی ان کے حقوق و فرائض، مقاصد و نصب العین اور لائحہ عمل کاتعین کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کا کردار ان رہنماء اخلاقی اقدار اور اصولوں کا پابند ہونا چاہئے جو فرد،ریاست اور ہر دوسرے ادارے پرعائدکی گئی ہیں جس طرح ایک فرد قومی سلامتی کی حفاظت کا ذمہ دار ہے بالکل اسی طرح ذرائع ابلاغ بھی قومی سلامتی کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، جس طرح فحاشی کو فروغ دینا ایک فرد کے لئے ممنوع ہے اسی طرح ذرائع ابلاغ کے لئے بھی ممنوع ہے، جس طرح مقدس ہستیوں کے ناموس کی حفاظت ہر شہری کافرض ہے اسی طرح ذرائع ابلاغ اوران کے ذمہ داران بھی ان مقدس ہستیوں کی ناموس کی حفاظت کے پابند ہیں۔ اوراگر ریاست کاکوئی ذمہ دار فرد یاکوئی ادارہ ایسے کسی غیرقانونی فعل کے ارتکاب یا اس کے فروغ پر چشم پوشی کے جرم کامرتکب ہوگا تویقیناًقانون اور پاکستان کے عوام کے سامنے جوابدہ ہوگا۔ دستور پاکستان نے تحفظ جان ،مال، آبرو، نجی اورشخصی آزادی کے تحفظ اور اسی نوعیت کے دوسرے امور میں جوحقوق و فرائض کادائرہ متعین کر دیاہے اس کا احترام فرد، ریاست اور ذرائع ابلاغ پر لازم ہے۔ اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی کامحتاط اور ذمہ دارانہ استعمال دستور کا لازمی تقاضا ہے اوراس ضمن میں ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری ہے کہ بلاتحقیق وآگاہی خبر کی نشرواشاعت سے اجتناب کریں،درست اور صحیح معلومات کا ابلاغ کریں۔ معلومات میں اگرصداقت اور ثقاہت کے عناصرموجود نہیں ہیں تووہ فریب کاری ہے۔ احترام انسانیت وتکریم آدمیت کا مکمل پاس اور لحاظ رکھاجائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ملک سے منافرت ، انتہاپسندی، بدامنی اورلاقانونیت کے خاتمے کے لئے ذرائع ابلاغ اپنا ذمہ دارانہ کردارادا کریں اور پیغام امن اور احترام انسانیت کے تصورات کو عام کریں۔ ذرائع ابلاغ کواجازت نہیں دی جاسکتی ہے کہ وہ انسانوں کی آزادئ ضمیراور عزت نفس کومجروح کرنے کا انتظام کریں۔ معاشرے کے تمام افراد کی نجی زندگی کاتحفظ معاشرے اورریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ تفتیشی صحافت کے نام پر شہریوں کے معمولات کی جاسوسی یا بلیک میلنگ تحفظ زندگی کے دستوری تقاضے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ابلاغ کے لئے حکمت ودانش ،سلیقہ مندومہذب اور باوقار اسلوب اختیار کیاجائے جس میں اظہار خیال میں شائستگی اوراخلاقی اقدار کے تحفظ کی جھلک نظر آئے۔آئین کی دفعہ 19 میں شہریوں کا تقریر اور اظہارِ رائے کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پریس آزاد ہو گا۔ لیکن اس بنیادی حق کو اسلام کی عظمت (Glory of islam)کی خاطر عائد کردہ معقول قانونی بندشوں کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔سپریم اپلیٹ کورٹ(گلگت بلتستان) کے فل بنچ فیصلہ بابت سوموٹو کیس نمبری 2010/5 میں فاضل چیف جسٹس جناب محمدنوازعباسی نے آزادی اظہار کی حدود کی وضاحت کرتے ہوئے یہ قرار دیا ہے کہ:
"133133.but propaganda of anti Islamic thoughts with a view to cause injury to the feelings of a Muslim sector any slander made in writing of in spoken words insultive to the Holy Prophets or to be critical with use of derogatory language in respect of the religious thoughts or to speak in favor of blasphemy or against the law of blasphemy in insultive manner to the honour of last Holy Prophet Muhammad (PBUH) is prohibited by law and also by code of moral conduct. Therefore, publication of objectionable material on the above matters is certainly beyond the right of free expressin and the person responsible for such publication directly or indirectly and also a person who in any manner acts in aid of such activity may be guilty of offence of Blasphemy and is equally liable for prosecution under the law of Blasphemy in addition to the prosecution for libel and defamation.
ترجمہ: "لیکن خلاف اسلام افکارکا اس نقطہ نظر سے پراپیگنڈا کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے یا نبی کریمؐ کے بارے میں توہین آمیز تحریری یا زبانی گفتگو یا توہین کے حق میں بیان بازی یا نبی کریمؐ کے تقدس کی حفاظت کی غرض سے بنائے گئے قانون توہین رسالت کے بارے میں نازیبا گفتگو قانونی طور پر ممنو ع ہے اور اخلاقی تعلیمات کے منافی بھی ہے لہٰذا ان معاملات پر قابل اعتراض مواد کی اشاعت یقینی طور پر آزادئ اظہار کے حق میں ہرگز شامل نہیں ہے اور ایسے موا د کی اشاعت میں بالواسطہ یا بلا واسطہ ملوث شخص یا کسی بھی طور پر اس کی مدد کرنے والا توہین رسالت کے جرم کا مرتکب ٹھہر سکتا ہے۔ اور ایسا شخص ہتک عزت کی کارروائی کے ساتھ تو ہین رسالت کے جرم میں سزا وارہو گا۔
83. Pakistan is a Muslim State and under the Constitution of Pakistan no law against the spirit of injunction of Islam can be made therefore and action criticizing Blasphemy law is rigidly condemnable.
83۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور دستور پاکستان کی رو سے اسلام کی تعلیما ت کے خلاف کوئی قانون سازی نہ ہو سکتی ہے لہٰذا توہین رسالت کے قانون پر انگشت نمائی سختی سے قابل مذمت ہے۔"
پریس کی آزادی کو اسلام کی خاطر معقول قانونی پابندیوں کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔انسانی حقوق کا عالمی منشور جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10دسمبر 1948ء کو منظور کیا، میں بھی آزادیوں اور حقوق کے ضمن میں ایسی حدود کاتعین کیاگیا ہے جودوسروں کی آزادی اورحقوق کو تسلیم کرنے، ان کے احترام کرنے یا جمہوری نظام میں اخلاق، امن عامہ اورعام فلاح وبہبود کے مناسب لوازمات سے مقید ہے۔انسانی حقوق کے عالمی منشور کی منظور ی کے تاریخی کارنامے کے بعد جنرل اسمبلی نے تمام ممبر ممالک پر یہ زوردیا کہ وہ بھی اپنے اپنے ہاں اس کااعلان عام کریں، اشاعت کریں، نمایاں مقامات پر آویزاں کریں، اور سکولوں وتعلیمی اداروں میں اس منشورکو پڑھائیں اورسمجھائیں۔اس منشور کی دفعات 92 و 30 انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
دفعہ 92: (1) ہرشخص پرمعاشرے کے حقوق ہیں کیونکہ معاشرے میں رہ کر ہی اس کی شخصیت کی آزادانہ اورپوری نشوونماممکن ہے۔
(2) اپنی آزادیوں اور حقوق سے فائدہ اٹھانے میں ہر شخص ایسی حدود کا پابند ہو گا جو دوسروں کی آزادیوں اور حقوق کوتسلیم کرانے اور ان کا احترام کرانے کی غرض سے یا جمہوری نظام میں اخلاق، امن عامہ اور عام فلاح و بہبود کے مناسب لوازمات کو پورا کرنے کے لئے قانون کی طرف سے عائد کئے گئے ہیں۔
(3) یہ حقوق اورآزادیاں کسی حالت میں بھی اقوام متحدہ کے مقاصد اوراصول کے خلاف عمل میں نہیں لائی جاسکتیں۔
دفعہ 30: اس اعلان کی کسی چیز سے کوئی ایسی بات مراد نہیں لی جا سکتی جس سے ملک ،گروہ، یاشخص کو کسی ایسی سرگرمی میں مصروف ہے یا کسی ایسے کام کوانجام دینے کاحق پیدا ہو جس کامنشا ان حقوق اورآزادیوں کی تخریب ہو، جویہاں پیش کی گئی ہیں۔(جاری ہے)