جنگ ستمبر میں ہمارے جرنیل چھپتے پھررہے تھے: بھارتی جنرل کا اعتراف
دہلی (ویب ڈیسک) جنگ ستمبر 1965ءکے دوران لاہور محاذ پر بھارتی فوجیوں کو پاک فضائیہ اور فوج نے پہلے دن 6 ستمبر کو ہی بری طرح ادھیڑ دیا تھا۔ اس کا اعتراف اس وقت علاقے میں بھارتی فوج کے کمانڈر جنرل ہربکش سنگھ نے اپنی سوانح عمری ”آن دی لائن آف ڈیوٹی“ میں کیا ہے۔
بھارتی جنرل نے بتایا ہے کہ لاہور پر قبضے کا خواب لے کر جارحیت کرنے والی بھارتی فوج میں پاکستان افواج کے جوابی حملے کے بعد کس طرح افراتفری پھیل گئی۔ بھارتی جنرل بھی جانیں بچانے کے لئے چھپتے پھررہے تھے۔ حملہ کرنے والے میجر جنرل نرنجن پرساد کے 15 ڈویژن میں زبردستی افراتفری پھیل ہوئی تھی۔ مغربی کمانڈ کے سربراہ جنرل ہربکش سنگھ کو جب وائرلیس پر جنرل نرنجن پر ساد کا پیغام ملا کہ ان کی ڈویژن پر پاکستان کی دو ڈویژنز نے حملہ کیا تو ان کی بریگیڈ کو اچھو گل نہر سے 7 کلومیٹر واپس گوسلگیال تک ہٹنا پڑا ہے، تو وہ حیران رہ گئے۔انہوں نے جنرل نرنجن پرساد کو پیغام بھیجا کہ چاہے جو ہوجائے آپ اپنی پوزیشن سے ایک انچ بھی یچھے نہیں ہٹیں گے۔ میں اور کور کماںڈر آپ سے ملنے آپ کے ٹھکانے پر ہی آرہے ہیں۔
جنرل ہربکش سنگھ کے مطابق جب وہ ڈرائیور کے ہمراہ جی ٹی روڈ پر پہنچے، تو وہاں کا نظارہ دیکھ کر ان کے ہوش اُڑ گئے ہر جگہ بھارتی فوجی گاڑیاں جل رہی تھیں۔ ڈرائیور انہیں چھوڑ کر بھاگ چکے تھے۔ بہت سی گاڑیوں کے تو انجن تک بند نہیں کئے گئے تھے۔ سڑک کے بیچو بیچ ایک ہتھیار بند گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ اس میں کوئی نہیں تھا لیکن چابی لگی ہوئی تھی۔ سڑک پر پاکستان کی بمباری سے بڑے بڑے گڑھے بن گئے تھے اور پاکستانی طیارے اس قت بھی اوپر اڑرہے تھے۔ ہربکش سنگھ کو ڈویژنل ملٹری پولیس کی ایک گاڑی میں گنے کے ان کھیتوں کے پاس لے جایا گیا، جہاں 15 ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل نرنجن پرساد بچنے کے لئے روپوش تھے۔
جنرل ہربکش سنگھ لکھتے ہیں جب نرنجن پرساد مجھے ریسیو کرنے آئے تو ان کے جوتے کیچڑ سے بھرے ہوئے تھے۔ ان کے سر پر ٹوپی نہیں تھی اور انہوں نے داڑھی بھی نہیں بنائی ہوئی تھی۔ ان کی وردی پر ان کا عہدہ بتانے والے سارے نشانات غائب تھے۔ میں نے ان کو اس حال میں دیکھ کر براہ راست سوال کیا آپ ڈویژن کے جنرل افسر کمانڈنگ ہیں یا قلی؟ آپ نے داڑھی کیوں نہیں بنائی ہے اور آپ کی رینک کے بیج کہاں ہیں؟ابھی یہ سوال جواب چل ہی رہے تھے کہ دو پاکستانی جنگی طیارے بہت نیچے پرواز بھرتے ہوئے ان کے سر کے اوپر سے گزرے۔ جنرل نرنجن پرساد نے جنرل ہربکش سنگھ کو پاس کی جھاڑی میں کھینچنے کی کوشش کی، جس پر وہ چلائے اور پرساد سے کہا کہ دشمن کے جہازوں کی ہم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ہمیں نہیں دیکھ پارہے ہیں۔ وہ ان گاڑیوں کو نشانہ بنارہے ہیں جنہیں آپ نے سڑک پر یوں ہی چھوڑ دیا ہے۔ جنرل ہربکش نے نرنجن پرساد سے پوچھا، آپ کے بریگیڈ کمانڈر کہاں ہیں؟ نرنجن پرساد نے آواز لگائی، پاٹھک، پاٹھک جب پاٹھک وہاں پہنچے تو ان کا منہ چادر کی طرح سفید تھا۔ پاٹھک نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ بہت لوگوں کے ہلاک ہوجانے کی وجہ سے ان کا بریگیڈ غیر فعال ہوگیا ہے۔ ہربکش نے پوچھا، کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں؟ پاٹھک نے جواب دیا 30 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جس پر جنرل ہربکش سنگھ نے کہا 4 ہزار میں سے صرف 30 افراد زخمی ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مکمل بریگیڈ غیر فعال ہوگئی ہے؟ جنرل ہربکش سنگھ نے انہیں نئے سرے سے آگے بڑھنے کا حکم دیا اور میجر جنرل نرنجن پرسادسے کہا کہ وہ بریگیڈ کی پیشرفت پر نظر رکھیں اور اگلی صبح کورکمانڈر کو آپریشن کی اطلاع دیں تاہم سات ستمبر کو نرنجن پرساد اپنی بریگیڈ کی پوزیشن جاننے کے لئے اے ڈی سی کے ساتھ ایک جیپ پر سوار ہوکر آگھے بڑھے ہی تھے کہ پاکستانی فوجیوں نے میڈیم مشین گن سے فائر کیا۔ نرنجن پرساد اور ان کے ڈی سی گاڑی چھوڑ کر قریب کے کھیتوں میں چھپ گئے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے اپنی جیپ بھی وہیں کھیتوں میں چھوڑدی جس میں ان کا ایک بریف کیس رکھا ہوا تھا۔ اس میں کئی اہم کاغذات بھی تھے۔ جیپ پر ڈویژن کا جھنڈا اور سٹار پلیٹ بھی لگی ہوئی تھی بعد میں یہ جیپ پاکستانی فوجیوں کے ہاتھ لگ گئی اور ریڈیو پاکستان نے بریف کیس میں رکھے کاغذات نشر کرنا شروع کردئیے۔ ان کاغذات میں جنرل ہربکش سنگھ کے خلاف فوجی سربراہ سے کی گئی شکایت بھی تھی۔ کور کمانڈر، میجر جنرل نرنجن پرساد کی اس غلطی کے لئے ان کا کورٹ مارشل کرنا چاہتے تھے لیکن جنرل چوہدری نے نرنجن پرساد سے استعفیٰ دینے کے لئے کہا۔