قرضے نہیں لینے تو آمدنی بڑھائیں
وزیراعظم عمران خان نے ڈیم بنانے کے لئے قوم بالخصوص سمندر پار پاکستانیوں سے دِل کھول کر عطیات دینے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں مقیم پاکستانی ایک ہزار ڈالر فی کس ڈیم فنڈ میں جمع کرائیں، وہ جو سعودی عرب،متحدہ عرب امارات یا مشرق وسطیٰ میں مزدوری کر رہے ہیں وہ اپنی استطاعت کے مطابق عطیات بھیجیں، ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے اگر ہم نے ڈیم نہ بنائے تو سات سال بعد 2025ء میں خشک سالی شروع ہو جائے گی،فصلوں اور پینے کے لئے بھی پانی نہیں ملے گا،قحط کا خطرہ ہے حکومت آج سے کام کا آغاز کر رہی ہے، چیف جسٹس آف پاکستان سے بات کی ہے ہم سی جے اور پی ایم فنڈز کو یکجا کر رہے ہیں،جب پاکستان آزاد ہوا تو ہر پاکستانی کے حصے میں پانچ ہزار چھ سو کیوسک پانی آتا اور آج ہر پاکستانی کے حصے میں صرف ایک ہزار کیوسک پانی رہ گیا ہے،مُلک میں صرف تیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے،جبکہ دُنیا سمجھتی ہے کہ120دن کے ذخیرہ کی گنجائش ہونی چاہئے۔اُن کا کہنا تھا پرانے قرضے واپس کرنے میں مشکلات ہیں،ہمیں باہر سے کوئی قرض نہیں دے گا،لیکن ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت ڈیم بنانا ہے، ہم بنا سکتے ہیں ہم نے صرف فیصلہ اور ارادہ کرناہے،انہوں نے یہ باتیں قوم سے نشری خطاب میں کہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے ڈیم بنانے کے لئے چندے کی جو اپیل کی ہے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اندرون مُلک اور بیرونِ مُلک پاکستانیوں سے اس کا مثبت ردعمل آئے گا اور دِل کھول کر عطیات دیئے جائیں گے، ڈیم کے لئے جناب چیف جسٹس نے پہل کاری کی تھی اور اب تک اِس فنڈ میں180 کروڑ روپے جمع ہوئے ہیں، اب یہ فنڈ پرائم منسٹر کے نئے قائم ہونے والے فنڈ میں ضم کر دیا گیا ہے، دو ماہ میں ڈیم فنڈ میں اگرچہ معقول رقم جمع ہو گئی ہے تاہم یہ ضرورت کے مقابلے میں ناکافی ہے اور اگر اسی تناسب سے وزیراعظم فنڈ میں بھی عطیات آتے ہیں تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ جو رقوم بھی جمع ہوں گی وہ ڈیم کے لئے کفایت نہیں کریں گی اور اس کے لئے دوسرے ذرائع پر بھی انحصار کرنا ہو گا۔اگرچہ تقریر کا فوری ردعمل تو مثبت ہے اور بیرونِ مُلک اِس حوالے سے گرمجوشی بھی ہو سکتی ہے تاہم فنڈ میں بالفعل کتنی رقم آتی ہے اور کتنے عرصے میں آتی ہے اس کا فوری طور پر اندازہ لگانا مشکل ہے،کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی معلوم ہو گا کہ وزیراعظم نے اندرون اور بیرونِ مُلک پاکستانیوں سے جو توقعات باندھی ہیں وہ کِس حد تک پوی ہوئی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کئی سال سے مسلسل یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی بڑھا کر آسانی سے12ہزار ارب تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ظاہر ہے جو بات وہ اتنے یقین سے کہتے رہے، اس کے لئے انہوں نے کوئی حساب تو لگایا ہی ہو گا،اِس لئے یہ ضروری ہے کہ اب وہ ٹیکسوں کے ذریعے آمدنی بڑھانے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام شروع کر دیں اس کے لئے کسی ٹاسک فورس کی ضرورت نہیں، بلکہ ایف بی آر میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے، لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جو ایف بی آر کئی سال تک بجٹ میں رکھا گیا ٹیکس ہدف بھی حاصل نہ کر سکا اور اسے ہر بار کم کرنا پڑا، کیا وہ ٹیکسوں کے ذریعے آمدنی دوگنا یا تین گنا کر سکتا ہے؟ اور کیا اس کے پاس ایسا کوئی انقلابی پلان ہے،ہمارے مُلک میں بدقسمتی سے ٹیکس دینے کا نہیں،ٹیکس چھپانے کا کلچر ہے، بڑے بڑے ارب پتی اور کروڑ پتی بھی خوش دِلی سے ٹیکس نہیں دیتے،بلکہ کروڑوں کمانے والے ایسے بھی ہیں جو ایک روپیہ ٹیکس نہیں دیتے، وہ محل نما گھروں میں رہتے ہیں، لگژری گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں،اُن کے بچے اعلیٰ اور مہنگے تعلیمی اداروں میں اندرون اور بیرون مُلک پڑھتے ہیں،لیکن جب ٹیکس کی بات آتی ہے تو اُن کے مُنہ لٹک جاتے ہیں اور وہ حیلوں بہانوں سے اُسے بچانے کے لئے کمر کس لیتے ہیں، تاجر ہر سال ایک نئی کمپنی بنا لیتے ہیں تاکہ ٹیکس سے بچے رہیں، قانونی ذریعے سے ٹیکس میں بچت کرنا یا کم ٹیکس ادا کرنا تو دُنیا کا ہر کاروباوی کرتا ہے،لیکن ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ اختیار کرنا ہمارے ہی کلچرکا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت بالواسطہ ٹیکسوں کا سہارا لیتی ہے،ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے ٹیکس امیر اور غریب کو یکساں شرح سے ادا کرنا پڑتے ہیں، مثال کے طور پر سیلز ٹیکس ہے جو ہر غریب اور امیر کو ایک ہی شرح سے ادا کرنا پڑتا ہے،حالانکہ بہت سے ممالک میں سیلز ٹیکس ایسی اشیا پر یا تو ہے ہی نہیں یا بہت کم ہے،جو غریب لوگ استعمال کرتے ہیں یا غریبوں کی بنیادی ضرورت کی ذیل میں آتی ہیں،ٹیکس کا بنیادی فلسفہ ہی یہ ہے کہ امیروں سے وصول کیا جائے اور غریبوں پر خرچ کیا جائے،لیکن ہمارے ہاں امیر اپنی امارت کے زور پر ٹیکس سے بچا رہتا ہے اور غریب کو ٹیکس ادا کرنے کی مجبوری ہوتی ہے،بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹیکس وصولی اسی ذیل میں آتی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے دعوؤں اور وعدوں کے مطابق ٹیکس سے جمع ہونے والی رقوم بڑھا کر دکھائیں اور اِس کا آغاز اسی بجٹ سے کرنے کی ضرورت ہے، سالِ رواں کے مالی سال میں جو بجٹ اہداف رکھے گئے ہیں اُنہیں فوری طور پر کم از کم دوگنا کر دیا جائے اور اگلے دس ماہ میں یہ ہدف حاصل کر کے دکھایا جائے۔ انہوں نے عطیات کی جو اپیل کی ہے وہ اپنی جگہ ہے ممکن ہے توقع کے مطابق اس مد میں بھی بڑی رقم حاصل ہو جائے،لیکن مستقل آمدنی کے لئے عطیات کی بجائے ٹیکس کلچر پر انحصار کیا جائے تو زیادہ اچھا اور قرینِ انصاف طریقہ ہوگا۔دُنیا میں ترقی کرنے والے مُلک یہی راستہ اپناتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ اس وقت پاکستان پر قرضے بہت ہیں اور مزید قرضوں کے حصول کے لئے بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، وزیر خزانہ اسد عمر کہہ چکے ہیں کہ مُلک چلانے کے لئے 12ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور ہم نے اگرچہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ نہیں کیا تاہم اگر ایسا فیصلہ کیا بھی جاتا ہے تو یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو گا،جو بھی کرنا ہے جلدی کر لینا چاہئے تاکہ اصلاحِ احوال کا آغاز ہو جائے، قرض اگر پیداواری مقاصد کے لئے لیا جائے اور اسی مد میں خرچ بھی کیا جائے تو ایسا قرضہ اتارنا آسان ہوتا ہے،لیکن اگر قرض لے کر غیر پیداواری اور غیر ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کر دیا جائے تو ظاہر ہے بوجھ بڑھے گا۔اگرچہ حکومت نے سادگی کی مہم شروع کر رکھی ہے تاہم اربوں کی کمی چند کروڑ روپے سادگی کے ذریعے بچا لینے سے پوری نہیں ہو گی جیسا کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال نے حال ہی میں کہا ہے کہ پکوڑوں اور سموسوں کی رقم بچا کر مُلک ترقی نہیں کر سکتے، مُلک اسی ذریعے سے ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکے گا،جو دُنیا بھر میں مسلمہ طریقہ ہے، ہم ٹیکس کی رقم اگر بڑھا نہیں سکیں گے تو پھر قرضے تو لینے پڑیں گے،چندے کی اپیلیں بھی ایک مخصوص مدت کے بعد اپنی کشش کھو دیتی ہیں،ڈیم کے لئے جمع ہونے والی رقوم سے اِس کا اندازہ بھی ہو جائے گا، اِس لئے قرضے نہیں لینے تو آمدنی بڑھائیں اور آمدنی ٹیکسوں سے ہی حاصل ہو گی۔