’’ترقی پسند طالب علم تحریک‘‘: ایک نامکمل کتاب

’’ترقی پسند طالب علم تحریک‘‘: ایک نامکمل کتاب
’’ترقی پسند طالب علم تحریک‘‘: ایک نامکمل کتاب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے نظریات کے مطابق سوشلسٹ انقلاب پہلے پہل اکتوبر 1917ء میں روس میں برپا ہوا، اس کے کوئی تیس سال بعد ماوزے تنگ کی قیادت میں چین میں بھی یہ تجربہ ہوگیا۔

روسی انقلاب کے برطانوی ہندوستان پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔ انہی اثرات کے تحت یہاں ترقی پسند لکھاری 1936ء میں ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ کے نام سے باقاعدہ ایک جماعت کی صورت میں منظم ہوئے۔

ان کا فلسفہ ادب کو حقیقی زندگی کا ترجمان اور نقاد بنانے کا تھا۔ ادب کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے کسانوں، صحافیوں اور مزدوروں میں بھی اشتراکی فکر پھیلانی شروع کردی۔ طالب علم طبقہ پہلے ہی غلامی کے خلاف تھا۔

اسے جب استحصالی طبقات کے خلاف جدوجہد کاراستہ دکھایا گیا تو اس کا ایک بڑا حصہ انقلابی تحریک کا حصہ بن گیا۔ پہلے پہل ان لوگوں کو برطانوی حکومت کے ہاتھوں کافی سختیاں بھی برداشت کرنا پڑیں، حتیٰ کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا پر پابندی لگ گئی۔ یہ پابندی اس وقت ختم ہوئی، جب دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی نے روس پر حملہ کیا اور روس کو یورپی سامراج کے ساتھ مفاہمت اختیار کرنا پڑی۔

انڈین کمیونسٹوں کا أوقف یہ تھا کہ ہم بھی فاشزم کے خلاف ہیں اور یورپی سرمایہ دار ممالک کے ساتھ مل کر اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
تقسیم کے وقت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا دو حصوں میں بٹ گئی:ایک حصہ بھارت میں رہ گیا اور دوسرا پاکستان میں آزادی کے فوراً بعد پاکستان امریکہ کے نزدیک ہونے لگا تو پاکستانی کمیونسٹوں کو حکومتی جبر و تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ لیاقت علی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے چند فوجی افسروں نے جو ناکام کوشش کی اس میں جن سول لوگوں کے نام سامنے آئے، ان میں چند اشتراکی فکر رکھنے والے فیض احمد فیض اور چند دیگر افراد بھی شامل تھے۔ اس کے بعد کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگ گئی اور اس کے متعلقین کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔

آزادی کے بعد اگر پاکستان میں جمہوری عمل چل پڑتا اور اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوجاتا تواشتراکی خیالات پھیلنے کے امکانات محدود ہوجاتے، لیکن بدقسمتی سے بیوروکریسی اور پرانے جاگیر دار سیاستدانوں نے اپنا طبقاتی جال پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کرنا شروع کردیا۔

ان کے ساتھ جس تیسرے طبقے نے سنگت اختیار کی، وہ صنعتی اور تجارتی طبقہ تھا۔ جنرل ایوب خان کے گیارہ سال میں محنت کش طبقات کے حُجم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ انہیں جب زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے مواقع نہ ملے تو ان کا شدید رد عمل اس طرح سامنے آیا کہ جب سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تو محروم طبقات کے لئے اس میں بہت زیادہ کشش تھی۔ سوشلزم کا مطلب ’’مساوات‘‘ بتایا گیا، چنانچہ دسمبر 1970ء کے قومی انتخابات میں بھٹو صاحب کی پاکستان پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔کئی پرانے جاگیردار اور سرمایہ دار شکست کھاگئے، اب بھٹو صاحب محنت کش طبقات کی امیدوں کا مرکز بن گئے، انہوں نے اقتدار میں آکر چند دائروں میں اصلاحات متعارف کروائیں، لیکن معاشرے پر اوپر والے طبقات کی گرفت بدستور برقرار رہی۔

کسانوں اور مزدوروں کو اگر کچھ حقوق مل بھی گئے تو نتیجہ صفر رہا، کیونکہ عدالتیں حسب معمول بااثر طبقات کے مفادات کی محافظ بنی رہیں۔ بعد میں دو فوجی اور کئی سول حکومتیں قائم ہوئیں، مگر محنت کش طبقات کے لئے راہیں مسدود ہی رہیں۔
سوشلسٹ فکر کے حامل دانشوروں نے بھٹو کے سوشلزم کا فریب کھا کر بھی اپنی جدوجہد ترک نہیں کی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک عوام بالادست طبقات کے مفادات اور ان کی بدلتی حکمت عملیوں کو نہیں سمجھتے ان کے حالات نہیں بدل سکتے۔ سوویت یونین کے زوال کے باوجود اشتراکی دانشوروں نے ہمت نہیں ہاری، حال ہی میں ہمیں محمد زاہد اسلام کی مرتب کردہ تین کتابیں دیکھنے کا موقع ملا ہے، جن میں پاکستان میں ہونے والی طبقاتی جدوجہد کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔

دوسری جلد میں پاکستانی کسانوں کی، تیسری میں ترقی پسند طالب علموں اور چوتھی میں مزدوروں کی ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پہلی جلد ابھی زیر طبع ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بالا تینوں کتابیں غیر معمولی محنت اور جذبے کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔ ان میں نچلے طبقات کو اپنی ماضی کی جدوجہد کا تجزیہ بھی ملتا ہے اور آگے بڑھنے کا شعور بھی۔

پیرا یہ بیان ذرا خشک تو ہے، لیکن جدوجہد کرنے والے طبقات کا چہرہ بڑی حد تک واضح ہوجاتا ہے۔ استحصالی طبقات کی پُر فریب چالیں بھی نمایاں ہوجاتی ہیں اور اس سوال کا جواب بھی بخوبی مل جاتا ہے کہ عوام ابھی تک خوار و زبوں کیوں ہیں؟مذکورہ کتابوں کے فاضل مرتب محمد زاہد اسلام چونکہ زمانۂ طالب علمی ہی میں بائیں بازو کی جدوجہد سے وابستہ ہوگئے تھے اور بعد میں بھی مصروف عمل رہے اس لئے انہیں پاکستانی طبقوں کی جدوجہد سے براہ راست واقفیت حاصل ہے۔ البتہ ہم چند پہلوؤں کی طرف انہیں توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں، ایک تو یہ کہ تینوں کتابوں میں انہوں نے معلومات کے ذرائع کی نشاندہی نہیں کی۔

یا اگر کہیں کی ہے تو وہ ادھوری ہے،مثلاً لکھتے ہیں:’’سلیگ ہیرلیسن لکھتے ہیں‘‘: اقتباس دینے کے بعد واضح نہیں کرتے کہ ہیرلیسن کہاں لکھتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ترقی پسند طالب علموں کی جدوجہد والی کتاب کے آغاز میں ترقی پسندی کی وضاحت کرنی چاہئے تھی۔

مجھے یاد ہے جب بھٹو صاحب نے سوشلزم اور اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تو طلبہ برادری میں ’’ترقی پسندی‘‘ کی اصطلاح پر بہت بحث مباحثہ ہوتا تھا۔
ایک جگہ جماعت اسلامی کے نوجوان لڑاکا گروپ کا نام ڈیموکریٹک یوتھ فرنٹ (DYF) لکھا ہے ، حالانکہ ’فرنٹ کی جگہ فورس‘ کا لفظ ہونا چاہئے،اگلے صفحہ پر ’نذرالرحمان رانا‘ کو ’نذرالسلام‘ بنادیا ہے۔ برکات کے قتل کا واقعہ بہت ادھورا بیان کیا ہے۔

لکھا ہے کہ ترقی پسند خالی ہاتھ تھے، یعنی ان کے پاس اسلحہ نہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کی حکومت نے ترقی پسند گروپ کو تحفظ دینے یا جتوانے کے لئے پنجاب یونیورسٹی میں پولیس بھیجی تھی ،جس نے لاء کالج کی چھت پر مورچے بنا رکھے تھے، اسی کی فائرنگ سے اسلامیہ کالج کا طالب علم برکات قتل ہوگیا تھا۔ اسی فائرنگ کا نشانہ شعبہ کیمسٹری کے ایک استاد بھی بنے تھے۔

سینٹ ہال جہاں ووٹوں کی گنتی ہورہی تھی، اسے روشنی فراہم کرنے والی تاریں کاٹ دی گئی تھیں۔ ترقی پسندوں کو اپنی شکست سامنے نظر آرہی تھی، اس لئے وہ حکومتی تعاون کے ساتھ سبوتاژ کی کارروائیاں کررہے تھے،اتفاق سے اسی دوران میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور طلبہ سیاست کو بہت قریب سے دیکھا، این ایس او کے نمایاں ورکر امجد سلیمی اور ان کے کئی ساتھی شعبہ سیاسیات میں میرے کلاس فیلو تھے، میرا اکثر ان سے تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ میری معلومات کے مطابق این ایس او سراسر ایک نظریاتی طلبہ تنظیم تھی اور اس کے پاس ورکرز کی ذہنی اور عملی تربیت کے لئے باقاعدہ ایک پروگرام تھا۔ ضیاء الحق دور میں پنجاب یونیورسٹی کی بائیں بازو کی تنظیموں کو جن جن ہتھکنڈوں کے ساتھ ختم کیا گیا، اس کی بہت دردناک تفصیلات ہیں جن کو اب سامنے آنا چاہئے۔

مصنف نے ان کا ذکر نہیں کیا۔ فاضل مصنف نے گورنمنٹ کالج کے طالب علم حنیف برکت کے قتل کا بھی ذکر نہیں کیا۔ یہ قتل اس الیکشن کے دوسرے دن ہوا، جس میں لیفٹ کے صدارتی امیدوار غلام عباس اور اسلامی جمعیت طلبہ کے عبدالشکور تھے، ان سرگرمیوں کے عقب میں ایجنسیوں کا کردار بھی تھا، جن کی طرف مصنف نے اشارہ تک نہیں کیا۔

پروفیسرعزیزالدین احمد کی کتاب ’’پاکستان میں طلبہ تحریک‘‘ کا بھی کہیں ذکر نہیں ہوا۔ اس میں بھی اگرچہ ادھوری معلومات تھیں، لیکن پھر بھی غنیمت تھی۔ ہم نے کسانوں اور مزدوروں والی جلدیں ابھی پوری طرح مطالعہ نہیں کیں اس لئے ان پر تبصرہ کسی اور موقع پر پیش کریں گے!

مزید :

رائے -کالم -