عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر66
اگلی صبح مصلح الدین آغا اور قاسم نے پچاس بہترین لڑاکا سپاہیوں کا ایک دستہ منتخب کیا ۔ اور مقرون کی مرکزی چوکی جو ’’باسفورس‘‘ کے کنارے واقع تھی، تیز رفتار سے مرکزی چوکی کی جانب اڑے چلے جارہے تھے۔ ابھی سورج کی پہلی کرن ہی نظر آئی تھی کہ مصلح الدین آغا کا برق رفتار دستہ ’’مقرون‘‘ کی مرکزی چوکی پر پہنچ چکا تھا ۔ یہ چوکی ایک چھوٹی سی عمارت تھی۔ جس کے چاروں طرف قدِ آدم فصیل تھی، اور درمیان میں چار پانچ کمرے گارے اور مٹی سے بنے ہوئے تھے۔ عمارت کے ایک کونے میں کسی قدر اونچا ..........ایک برج تھا ۔ جس میں موجود مقرون کے دونوں تیرانداز رات بھر شراب پینے کے باعث بے سدھ سور ہے تھے۔ مصلح الدین آغا کے سپاہیوں نے آن کی آن میں چوکی پر دھاوا بول دیا ۔ اور کمروں میں گھس کر خوابِ خرگوش کے مزے لیتے ہوئے یونانی سپاہیوں کو تہہ تیغ کردیا ۔ برج پر موجود تیرانداز بھی مارے گئے۔ اور چوکی میں موجود ایک یونانی سپاہی بھی زندہ نہ رہا۔ لیکن مقرون اور روزی ان کے ہاتھ نہ آئے۔
وہ ان کے ہاتھ کیسے آتے۔ وہ تو گذشتہ رات سے ہی یہاں نہیں تھے۔مقرون زنجیروں میں جکڑی روزی کو لے کر ’’برجِ غلاطہ‘ ‘ کی جانب نکل گیا تھا ۔ جہاں وہ روزی کے شباب سے پوری طرح لطف اندوز ہوسکتا تھا ۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر65پڑھنے کیلئےیہاں کلک کریں
’’برجِ غلاطہ‘‘ یہاں سے کافی فاصلے پر تھا ۔ یہ ایک نہایت قدیم کئی منزلہ مینار تھا ۔ جس کی چوڑائی اس قدر تھی کہ اسے ایک باقاعدہ عمارت سمجھا جاسکتا تھا ۔ اس برج میں اوپر نیچے کئی کمرے تھے۔ اور یہ برج بھی یونانی سپاہیوں کے قبضے میں تھا۔ ’’مقرون ‘‘ کا صدر دفتر بھی یہیں تھا ۔ اور مقرون ہی یہاں کا نگران بھی تھا۔ یہ برج فی الحقیقت قسطنطنیہ شہر کے بالکل نزدیک ’’گولڈن ہارن‘‘ کے کنارے پر واقع تھا ۔ ’’برجِ غلاطہ ‘‘ کو ۵۰۷ ء میں بازنطینی شہنشاہوں نے جہازوں کی رہنمائی کے لیے ’’روشنی گھر ‘‘ (لائیٹ ہاؤس ) کے طور پر تعمیر کیا تھا ۔ یہ بہت بلند ٹاور تھا ۔ اور اس میں خاصی وسیع و عریض و بلند و بالا دس منزلیں تھیں۔ یہ رات مقرون نے روزی کے ہمراہ برجِ غلاطہ میں ہی گزاری تھی۔ وہ رات بھر شراب پی کر روزی کی عزت پر حملہ آور ہوتا رہا۔ لیکن روزی نے اسے کسی خونخواربلی کی طرح نزدیک نہ آنے دیا۔ وہ پوری طرح ہوش میں ہوتا تو روزی کی آبرو یقیناًلٹ چکی ہوتی۔ لیکن بہت زیادہ شراب پی لینے کے باعث وہ بری طرح لڑکھڑا رہا تھا ۔ بالآخر صبح کے قریب اس کی آنکھ لگ گئی۔ اور اس وقت کہیں جاکر روزی کی جان میں جان آئی۔مقرون کی آنکھ دن چڑھے ایک بری خبر کے ساتھ کھلی ........کسی نے اس کی مرکزی چوکی پر شب خون مار کر تمام سپاہیوں کو تہہ تیغ کردیا تھا ۔ یہ مقرون کے لیے بے حد بری خبر تھی۔ کیونکہ وہ قیصرِ قسطنطنیہ کے سامنے مرکزی چوکی سے اپنے غائب رہنے کا کوئی جواز پیش نہ کرسکتا تھا ۔ وہ بری طرح گھبرا گیا ۔ اور اسے پہلی مرتبہ ایسے لگا کہ جس مفرور کو رومی راہب سمجھ رہا تھا ۔ وہ سرے سے عیسائی ہی نہ تھا ۔ کیونکہ مرکزی چوکی پر حملہ کسی اکیلے شخص کی بات نہ تھی اور مقرون جانتا تھا کہ یہاں زیادہ تعداد میں موجود دشمن صرف مسلمان ہی ہیں ۔ جونہیں اس کے ذہب میں یہ بات آئی کہ حملہ مسلمانوں نے کیا ہے ۔ وہ اور زیادہ پریشان ہوگیا ۔ اب اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نیں تھا کہ شہنشاہ کے پاس خبر پہنچنے سے پہلے پہلے وہ ’’رومیلی حصار‘‘ میں موجود مسلمانوں سے بدلہ لے لے۔
’’رومیلی حصار‘‘ یہاں سے پانچ میل کے فاصلے پر تعمیر ہورہا تھا ۔ اور مقرون کے پاس یہاں چارسو مسلح سوار دستیاب تھے۔ مقرون نے ’’برجِ غلاطہ‘‘ کی ساتویں منزل سے اتر کر فی الفور ایک کشتی پکڑی اور ’’گولڈن ہارن‘‘ کی خلیج کو عبور کرتا ہوا واپس اسی ساحل پر آن اُترا جہاں سے وہ ’’برجِ غلاطہ ‘‘ کے لیے گزشتہ شب کشتی میں سوار ہوا تھا ۔
اس ساحل پر اس کے سپاہی خیمہ زن تھے۔ مقرون نے انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنے سپاہیوں کو ہمراہ لیا۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں فصیل سے باہر کے حالات فصیل کے اندر شہنشاہ کے کانوں تک نہ پہنچ جائیں۔ شہر سے تھوڑی دور پہنچ کر مقرون نے گھوڑے کو ایڑھ لگادی۔ اب چار سو سواروں کا یہ مختصر لشکر دھول کے بادل اڑا تا ہوا۔ ’’رومیلی حصار‘‘ کی جانب بڑھ رہاتھا۔مصلح الدین آغا کے تیز رفتار جاسوسوں نے اسے وقت سے پہلے خبردار کردیا ۔ چنانچہ مقرون کا یونانی لشکر ’’رومیلی حصار‘‘ کے نزدیک پہنچا تو اسے رکنا پڑا۔ سامنے رومیلی حصار کے سپاہی صفیں باندھے پہلے سے تیار کھڑے تھے۔ مصلح الدین آغا نے مقرون کا استقبال ایک لشکر کی طرح کیا۔ اور باقاعدہ طبلِ جنگ بجاکر مقرون پر حملہ کردیا۔ مسلمان تعداد میں کم تھے۔ اس کے سواروں کی تعداد اسی کے قریب تھی۔ اور پیدل لڑنے والے سو سے بھی کم تھے۔ لیکن جس منظم طریقے سے مصلح الدین آغا نے جنگ کا آغاز کیا تھا ۔ اس کی توقع ’’مقرون‘‘ کے سپاہیوں کو نہ تھی۔ صبح 9 کے قریب اس لڑائی کا آغاز ہوا اور صرف آدھے گھنٹے میں ہی یہ جنگ اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ اور مقرون اپنے پیچھے بہت سی لاشیں چھوڑ کر ’’برجِ غلاطہ‘‘ کی جانب فرار ہوگیا۔
آج کا دن مقرون کے لیے ایک عذاب کی شکل میں نازل ہوا تھا ۔ کیونکہ وہ جونہی برجِ غلاطہ پہنچا ۔ شہنشاہ کے پیغام بردار اس کے منتظر تھے۔ اب مقرون کا خون خشک ہونے لگا۔ اسے قیصر کی طرف سے اپنے لیے سزائے موت یا سزائے قید کا حکم صاف دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن شہنشاہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے اس نے ایک عجیب کام کیا۔ اور وہ یہ کہ برجِ غلاطہ کی ساتویں منزل میں قید روزی کو بغیر کچھ کہے آزاد کردیا۔ شاید یہی وہ نیکی تھی جو آخری وقت میں اس کے کام آئی۔ اور شہنشاہ نے تمام حالات سننے کے باوجود اسے صرف اتنی سزا دی کہ اسے مضافاتی چوکیوں کی نگرانی کے عہدے سے ہٹا کر ایک عام سپاہی بنادیا۔ شہنشاہ نے مضافاتی چوکیوں کا نگران ’’ڈیلارس‘‘ کو مقرر کیا۔ اور ایک ہنگامی حکم کے تحت شہر قسطنطنیہ کے تمام دروازے بند کردیے۔یہ گویا عوام کے سامنے ہنگامی حالت کا اعلان تھا ۔ اب اہل قسطنطنیہ پوری طرح سمجھ گئے کہ شہر پر کوئی سنگین حملہ ہونے والا ہے۔ ’’قیصر قسطنطین‘‘ کو اس اقدام کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ قسطنطنیہ کے شہریوں نے جن کی تعداد اس وقت ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھی ، شہنشاہ کو دفاعی اخراجات کے لیے چندہ دینا شروع کردیا۔ ساتھ ہی لوگوں نے سلطان کے مذہبی اقدامات کے خلاف بولنا بھی ترک کردیا۔ اور عیسائیت کے دونوں فرقوں کے اتحاد کی بات کرنے لگے۔ شہنشاہ نے لوگوں کا رویہ دیکھا تو فوراً’’سینٹ صوفیا‘‘ کے چرچ میں جو مشرقی کلیسا اور بطریقِ اعظم کا مرکز تھا، دونوں عیسائی فرقوں کی ایک متحدہ مجلس منعقد کرنے کا اعلان کردیا۔اور اس کی صدارت کے لیے رومی کلیسا کے ’’پوپ جان نیکلسن پنجم‘‘ کے خصوصی نمائندہ ’’کارڈ نیل اسیڈور‘‘ کو دعوت دی گئی جو اس وقت ’’قسطنطنیہ ‘‘ میں موجود تھا ۔
فصیل سے باہر یونانی کا شتکاروں اور سپاہیوں کے ساتھ ہونے چھیڑ چھاڑ کے بعد شہنشاہ نے ایک کام یہ بھی کیا کہ تجربہ کار سفیروں پر مشتمل ایک وفد ’’سلطان محمد خان‘‘ کی خدمت میں بھی بھیجا ۔ جس میں مسلمان سپاہیوں کے طرزِ عمل کی شکایت کی گئی تھی۔ سلطان محمد خان نے اس شکایت کا جواب اعلانِ جنگ سے دیا۔ اور شہنشاہ کے سفیروں کو روانہ کرتے وقت یہ کہا:۔
’’قیصر قسطنطین سے کہنا کہ سلطان محمد خان، فاتح بن کر قسطنطنیہ میں آرہا ہے۔ اور اسے چاہیے کہ وہ عثمانی افواج کا استقبال کھلے دروازوں کے ساتھ کرے۔ ورنہ ترکوں کے گھوڑے شہنشاہ کے شہر کو عبرت کانشان بنادیں گے۔‘‘
سلطان کے الفاظ شہنشاہ کے کانوں پر توپ کا گولہ بن کر گرے ۔ اور وہ بری طرح دہل گیا ۔ اس نے فوری طور پر اپنے سفیر مختلف عیسائی مملکتوں کی طرف روانہ کیے۔ اور پوری عیسائی دنیا سے اس مشکل وقت میں مدد کی درخواست کی۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)