اُردو کا نفاذ: مایوسی سے نکلنے کی ایک نئی راہ

اُردو کا نفاذ: مایوسی سے نکلنے کی ایک نئی راہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جب ہجوم افکار و خیالات و نظریات کے ذریعے منظم ہوجائیں تو انسانوں کی اس وسیع تنظیم کو ”قوم“ کا نام دیا جاتا ہے۔ علم سیاست کی اس اصطلاح کی عمر 200 سال سے زائد نہیں ہے کیونکہ موجودہ قومی ریاست (Nation state) کو وجود میں آئے بھی اتنا ہی عرصہ گزرا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ایمپائرز مکمل طور پر ختم ہوگئیں اور قومی ریاست کے تصور کے تحت دنیا کی موجودہ سیاسی تقسیم وجود میں آئی اور قومی ریاست کے ساتھ ہی قوم کا تصور بھی مستحکم ہوگیا۔ وگرنہ ہمارے پاس تو قوم کے تصور سے زیادہ وسعت کا حامل تصور ”امت“ کی شکل میں موجود تھا اور ہے۔ ہمارے اندر کے ”ماہرین“ کی ”مغربی غیرت“ اگرچہ ”امت“کے تصور سے سٹپٹاتی ہے لیکن اس ضمن میں ہم اپنوں کے مقابلے میں غیروں اور دشمنوں کے زیادہ ممنون احسان ہے کہ وہ ہماری تمام تر ٹوٹ پھوٹ کے باوجود ہمیں ایک امت ہی سمجھتے ہیں۔

وہ ہم سے نمٹنے کے تمام منصوبے اور سازشیں ہمیں ایک امت سمجھ کر ہی تیار کرتے ہیں۔ بہرحال اس نئی اصطلاح کے مطابق ہم کسی نہ کسی طرح ایک قوم تو ہیں۔ مشترکہ سیاسی جدوجہد کو قوم بنانے والے عوامل میں ایک قومی زبان کا ہونا بھی ایک بنیادی عنصر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کرہ ئ عرض پر اس وقت جتنے بھی ملک ہیں سب کی کوئی نہ کوئی قومی زبان ہے اور وہ اس کے قومی ہونے پر متفق بھی ہیں اور اگر کسی ملک میں کئی مقامی زبانیں ہیں تو وہاں بھی باہمی رابطے کی ایک زبان (link language) ضرور موجود ہیں۔ اور زبان کے قومی ہونے اور ملکی قومی سطح پر ربط باہمی کا ذریعہ ہونے پر کوئی اختلاف موجود نہیں ہیں۔ دنیا کی تمام قومیں اس بات پر بھی متفق ہیں کہ قومی سطح پر ایک زبان کا ہونا کسی قوم کی بائنڈنگ فورس یعنی قوم کو باہم جوڑنے والی قوتوں میں سے ایک اہم قوت ہے۔


جن ممالک میں ایک سے زائد مقامی بولیاں بولی جاتی ہوں، وہاں کوئی ایک زبان ضرور ایسی موجود ہوتی ہے جو اس خطے میں ہر جگہ سمجھی جاتی ہو۔ ایسی کسی زبان کو اصطلاح میں lingua Franca کہتے ہیں۔ اردو پاکستان ہی کے خطے میں نہیں بلکہ پورے برصغیر پاک و ہند میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان میں تو یہ lingua franca ہے ہی لیکن برصغیر کے تقریباً 40 سے 50 کروڑ لوگ اس کو بولتے اور سمجھتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود نفاذ کی عملی راھیں تو اب بھی نہیں کھل سکیں لیکن عمل درآمد کے ماحول کو متاثرکرنے والے کچھ اور عوامل بھی بیچ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اصلاحِ احوال کی ہر کوشش کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے موجود رہتے ہیں، جن میں اکثریت انگریز ی دان طبقے کی ہے۔

وہ زبان اور شعور اور تہذیب کے باہمی تعلق کو سمجھنے کی صلاحیّت تو رکھتے نہیں لیکن اپنی ماہرانہ رائے دینے سے نہیں چوکتے۔ ایک مضمون نگار کی ماہرانہ رائے ملاحظہ ہو فرماتے ہیں کہ ”حالیہ سالوں میں عربی اور دوسری زبانوں کی بہت سی کتابوں کا اُردو ترجمہ کیا گیا ہے جو بنیاد پرستانہ نوعیت کا ہے۔ ریاست پہلے ہی معاشرے کو غیر متشدّد کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اِس طرح اردو کے نفاذ پر زور دیا گیا تو درد ِسر کے نئے مواقع پیدا ہوجائیں گے۔“ اب بتائیں کیا کریں اِن لوگوں کا۔


اردو ادب اس قدر بھرپور توانائی (richness) کا حامل ہے کہ دنیا کے منتخب ادبوں میں اس کا شمار کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ عربی کے بعد اسلام کے حوالے سے سب سے زیادہ علمی لٹریچر اردو زبان ہی میں موجود ہے۔ اردو کے درخت کی کونپلیں، مشترکہ ہندوستان ہی کی سر زمین سے پھوٹیں۔ ہندو مسلم مشترکہ طور پر ہی اس کے ادیب اور شاعر رہے۔ یہ تعصب بعد ازاں پیدا ہوا جب کسی منصوبہ بندی یا ارادے کے بغیر یہ مسلمانوں کی زبان بنتی چلی گئی اور مسلم ادب اردو میں اپنی جگہ بناتا چلا گیا۔ وگرنہ اس سے پہلے ہندو اکابرین کے لیے بھی اردو منظور نظر رہتی رہی ہے۔ پندٹ نہرو کے حوالے سے تو کہا جاتا ہے کہ ان کا شادی کارڈ اردو میں چھپا تھا اور وہ اردو سے اس قدر محبت رکھتے تھے کہ اسے اپنی مادری زبان کہتے تھے۔

یہ بات 2013ء میں لاہور میں ہونے والی اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت سے تشریف لائے ہوئے ڈاکٹر شمیم حنفی نے اپنے خطاب میں کہی۔ ڈاکٹر حنفی کا یہ کہنا بھی تھا کہ ہندی کو بھارت کی سرکاری زبان قرار دینے کی وجہ دشمنی نہیں تھی بلکہ اس کی وجوہات سیاسی نوعیت کی تھیں۔ انھوں نے زبان کی ترقی اور فروغ کے حوالے سے ایک خوبصورت پہلو کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا ”زبانیں حکومتوں کی نگرانی ہی میں نشوو نما نہیں پاتیں۔ بلکہ اس کے بولنے والے اسے ترقی کی راہ پر ڈالتے ہیں“۔ ڈاکٹر حنفی صاحب نے ہمارے لیے مایوسی سے نکلنے کی ایک نئی راہ نکال دی۔ اگرچہ سرکاری سر پرستی میں جب کوئی زبان ادارہ جاتی سطح پر زبان و بیان اور تحریر و تقریر کے سانچوں ڈھل جاتی ہے تو اسے ایک اعتبار حاصل ہوجاتا ہے۔ لیکن جب ایسا نہ ہوسکے اور غلامی میں ڈوبی ہوئی لیڈر شپ کو جھنجھوڑتے جھنجھوڑتے 70 سال بھی ناکافی ہوں جائیں:


تو ہم ہی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی


کے مصداق کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے کہ گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی۔ موجودہ سیاسی و انتظامی لیڈر شپ کے ذریعے جب یہ امکان ہی نظر نہیں آرہا کہ اردو نفاذ کی راہ پاسکے گی تو سپریم کورٹ خواہ ڈنڈا پکڑ کر باہر آنکلے تو اردو پھر بھی غلام گردشوں میں پڑی سوکھتی رہے گی۔ لہٰذا اردو کے لیے سرکاری مہم چلانے کے ساتھ ساتھ عوامی مہم کو فروغ دے کر اسے ہر سطح پر پھیلا دیا جائے۔ تحریک نفاذ اردو اور انجمن فروغ اردو والوں کو کچھ نئی جہات میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہوگی۔ حکومت پر اردو کو سرکاری زبان بنانے پر دباؤ بڑھانے کے ساتھ ساتھ اردو کو ادب کے تمام جدید تقاضوں سے ہم آھنگ کرنے اور زبان کو زندگی دینے اور اسے عملی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے حیات آور پروگرامز کا اجراء کرنا ہوگا۔ اس کی کئی طرح سے عملی شکلیں ہوسکتی ہیں جن پر الگ سے بات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اردو سے محبت کرنے والے حکومتی ہتھکنڈوں سے دل برداشتہ ہوکر اپنی کوششوں سے الگ ہوکر بیٹھ گئے ہیں، بلکہ اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ اردو کے فروغ کے لیے حکومتی تعاون یا سرپرستی پر انحصار نہ کیا جائے اور زندگی کو اردو میں اور اردو کو زندگی میں ڈھالنے کی جدوجہد جاری رہے۔ کبھی نہ کبھی تو حکمرانوں کو شرم آئے گی۔

مزید :

رائے -کالم -