تجارت وصنعت میں سید بابر علی کا دیومالائی کردار  (2)

تجارت وصنعت میں سید بابر علی کا دیومالائی کردار  (2)
 تجارت وصنعت میں سید بابر علی کا دیومالائی کردار  (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دیانت اور وفا کے اس قحط میں یقینا اور بھی بڑے بڑے صنعتکار اور بزنس منتظم ہونگے۔مگر سید بابر علی کا اپنا ہی مقام ہے۔والدین نے انکی پیدائش پر بجا طور پر”ببر شیر“کا خطاب دیا تھا۔وہ1926میں لاہور میں پیدا وئے۔سید مراتب علی کے فرزند ہیں۔قیام پاکستان کے وقت انکے خاندان کی فیروز پور کے علاوہ لاہور میں کافی جائیداد تھی اور نقد بھی بہت کچھ تھا۔ ملک میں انڈسٹری توتھی ہی نہیں۔صرف اوکاڑہ میں برلا اور لائلپور میں سری رام کی کاٹن ٹیکسٹائل ملیں تھیں۔حکومت نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کاروبار کریں۔چنانچہ انہوں نے ایک آئل مل حیدر آباد میں خریدی۔یہاں بنولے کا تیل نکالا جاتا تھا۔سید بابرعلی کی سرکردگی میں یہ آئل مل ترقی کے مراحل طے کرتی ہوئی ایک دن وزیر علی انڈسٹریز کے نام سے مشہور ہوئی۔ہندؤں کی چھوڑی ہوئی ایک جننگ فیکٹری خرید کی۔یوں سید بابر علی دیکھتے ہی دیکھتے کاٹن ایکسپورٹ میں آگئے۔انکے کاروبار میں اضافہ ہوتا گیا۔ایک موقع پر 1949میں انہیں کاٹن ایکسپورٹ میں دولاکھ روپے کا خسارا ہوا۔اس پر انہیں بہت افسوس ہوا مگر انکے والد نے انہیں حوصلہ دیا۔دو لاکھ روپے1949میں بہت بڑی رقم تھی۔

سید بابر علی نے بتایا ان دنوں سونا36روپے فی تولہ تھا۔والد صاحب کہتے تھے کہ بیچ کر پچھتاؤ‘رکھ کر نہ پچھتاؤ۔پیسہ دھوپ اور چھاؤں کی طرح ہوتا ہے۔یہ آنے جانے والی چیز ہے۔والد صاحب کہتے تھے TAKE A RISK, TAKE A DECISION
سید بابر علی نے کہا ”یہ وہ معقولہ ہے جس پر ان کا ہمیشہBELEIFرہا“۔یہ انکے والد کا دیا ہوا اعتماد اور حوصلہ تھا۔اور انکی مستقل مزاجی تھی‘تدبر‘دیانتداری اور اعلی انتظامی صلاحیت تھی جس نے انہیں کامیابیوں کا راستہ دکھایا اور وزیر علی انڈسٹریز‘پیکجز لمٹیڈ‘نیسلے اور فرٹیلائزر سیکٹر میں NFCجیسے عظیم اداروں کے معمار بنایا۔انہوں نے25سال کی عمر میں سویڈن کی فرم سے JOINT VENTUREبنیادوں پر پیکجز لمٹیڈ کے نام سے پاکستان میں پلانٹ لگایا۔تعلیمی میدان میں انہوں نے اپنی پاکٹ سے پیسہ خرچ کرکےLUMS(لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز)جیسا ادارہ بنایا جو دنیا کی اعلی ترین یونیورسٹیوں کا ہم پلہ ہے جس کے وہ بانی پروچانسلر ہیں۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہاں بغیر میرٹ کے کسی طالبعلم کو داخلہ مل جائے۔


جگنو محسن سے انٹرویو میں اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے بتایا۔وہ گھر میں بہت لاڈلے تھے۔خاص طور پر اپنی والدہ کے بہت چہیتے تھے۔مگر والدہ نے انہیں لاڈ پیار میں بگڑنے نہیں دیا۔انہوں نے سنجیدگی سے اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت پر توجہ دی۔وہ خودایک پڑھی لکھی اور باذوق خاتون تھیں۔اپنی ثقافت کی دلدادہ‘اور سخن فہم تھیں۔اردو اور فارسی شاعری کا ذوق رکھتی تھیں۔شعروشاعری کا ذوق اور اپنی ثقافت سے محبت بابر علی کو ماں کی طرف سے ورثے میں ملے۔ وہ بتاتے ہیں۔گھر میں انکی بہنیں اور وہ اکثر آپس میں بیت بازی کرتے تھے۔یہ بیت بازی انہیں والدہ نے شروع کروائی تھی۔ بیت بازی کا یہ شوق انہیں بہت عرصہ تک رہا۔انہیں آج بھی بہت سے اشعار زبانی یاد ہیں۔انکی بلا کی یادداشت ہے۔انکی کامیابیوں کا ایک راز انکی قوت یا دداشت بھی تھی۔وہ اپنے سٹاف کو‘اپنے لوگوں کو جو بات ایک دفعہ کہہ دیتے تھے۔جو ہدایات دے دیتے تھے۔

ایک سال بعد بھی انہیں یاد رہتی تھی۔انہوں نے جواحکام دیئے ہوتے تھے ان پر عمل درآمد پہ کسی وقت بھی پوچھ  سکتے تھے۔ڈاکٹر تسنیم صاحب جو ورلڈ بنک کے ڈائریکٹر تھے اس سے پہلے NFMLکے جنرل منیجر(ٹیکنیکل)رہ چکے تھے نے بتایا کہ سید بابر علی چیئرمین پاک امریکن فرٹیلائزر فیکٹری داؤد خیل(میانوالی) میں وزٹ کے دوران فیکٹری کے سبزہ زار سے گذرے تو مالی سے باتیں کرنے لگے۔کچھ پودوں کے نام بتاتے ہوئے ایم ڈی کی موجودگی میں ہدائت کی کہ یہ پودے بھی سبزہ زارمیں لگائیں۔ایک سال بعد دوبارہ انکا وزٹ ہوا تو انہوں نے پوچھا کہ فلاں فلاں پودے کہاں لگائے ہیں۔؟MDفیکٹری اور مالی اپنا سامنہ لیکر رہ گئے کیونکہ معمولی بات سمجھ کر وہ یہ ہدائت بھول چکے تھے۔سید بابر علی چھوٹی چھوٹی باتوں‘چھوٹے چھوٹے کاموں کی تکمیل کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے تھے جتنی کہ بڑے کاموں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے سٹاف کے لوگ بھی ان سے بہت زیادہ محبت اور احترام کرتے تھے۔ناصر جاوید جو اپنے ادارے میڈی پیک کے سربراہ ہیں‘ان دنوں NFMLمیں ڈپٹی جنرل منیجر تھے۔وہ سید بابر علی کی شخصیت سے اتنے متاثر تھے کہL NFMچھوڑ کر نسبتا چھوٹی جاب پر پیکجز میں چلے گئے۔وہاں سے LEARNکیا۔ اور اپنے ادارے میڈی پیک لمٹیڈ میں چلے گئے۔


صدر محمد ایوب خان کے دور حکومت میں سید بابر علی کے خاندان کا شمار ملک کے 22 امیر ترین خاندانوں میں ہوتا تھا۔1970کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنلائزیشن کی پالیسی اختیار کی تو سید بابر علی فیملی کے6بڑے بڑے صنعتی یونٹس میں سے5نیشنلائز کرلئے گئے۔صرف پیکجز لمٹیڈ بچ گیا۔انکا چیئرمینNFCکا عہدہ قبول کرنا بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔اس موقع پر سید بابر علی کے ایک چہیتے شخص ڈاکٹر تسنیم کی کہی ہوئی ایک بات یاد آگئی جو انہوں نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مجھ سے کہی تھی اور یہ بات سید بابر علی پر فٹ آتی ہے۔کریم(مکھن) کو مٹھی میں پکڑ کر جتنی دیر مرضی چاٹی کی لسی میں دبائے رکھو۔آپ جب بھی کریم کے پیڑے کو ہاتھ سے چھوڑیں گے وہ خودبخود سطح پر آجائیگا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے سید بابر علی کی 5بڑی صنعتیں نیشنلائز کرکے ایک طرح سے انہیں مٹھی میں بند کرکے دبا دیا تھا۔مگر وہ ایک کریم تھے انہوں نے سطح پر آنا ہی تھا۔اسی بابر علی کی بھٹو کو ضرورت پیش آگئی اور اس نے وزارت صنعت وپیداوار کو لکھا کہ ”میں سید بابر علی کو نیشنل فرٹیلائزر میں دیکھنا چاہتا ہوں“مگر سید بابر علی کے لئے اس عہدے میں کوئی کشش نہیں تھی۔وہ کہتے ہیں ”میں نے فیملی سے مشورہ کیا تو کہا گیا میں اپنی مرضی کروں“انہوں نے بھٹو کے چہیتے بیوروکریٹ وقار احمد جن کے انکے خاندان سے اچھے مراسم تھے‘سے مشورہ کیا اور کہا کہ وہ چیئرمینNFCکا عہدہ قبول نہیں کرنا چاہتے۔وقار احمد نے کہا”آپ کی پانچ صنعتیں پہلے ہی نیشنلائز ہوچکی ہیں۔آپ اپنی چھٹی صنعت نیشنلائز ہونے سے بچالیں۔اور یہ عہدہ قبول کرلیں۔خاندان والوں نے بھی کہا یا اپنی پیکجز لمٹیڈ کو نیشنلائز کروالیں یا خود کو نیشنلائز کروالیں۔چنانچہ بادل نخواستہ انہوں نے چیئرمین NFCکا عہدہ قبول کرلیا۔چیئرمینNFCکے عہدے پر کام کرنا انکے لئے ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔


بھٹو گورنمنٹ میں گذرے ہوئے یہ چار سال ان کی زندگی کا خوبصورت ترین دور تھا۔یہ خوبصورتی اس چیلنج میں تھی جوانہوں نے قبول کیا تھا۔وہ بتاتے ہیں ”بھٹو نے میرے کام میں کبھی مداخلت نہیں کی تھی۔انہوں نے نئی کھاد فیکٹریاں لگانے کیلئے مجھے500ملین روپے دیئے تھے۔ان کا ایک ٹیلی فون بھی نہیں آیا تھا کہ اس سے خریدو‘اس کو نوکر رکھ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!بھٹو کو پتہ تھا میں اپنی مرضی سے ادارہ چلاؤں گا اور کسی مداخلت کو برداشت نہیں کرونگا“۔انہوں نے بتایا بھٹو مردم شناس تھے۔وہ جانتے تھے کس سے کیا کام لینا ہے اور کیسے لینا ہے۔بابر علی بھٹو کے اعتماد پر پورا اترے۔انہوں نے دیانتداری سے پبلک سیکٹر میں فرٹیلائزر انڈسٹری کو سنبھالا‘کامیابی سے چلایا۔ہریونٹ کو منافع بخش بنایا۔ایک ذیلی ادارےNFMLکے ذریعے کیمیائی کھادوں کی پیداوار کو پانچ ہزار پرائیویٹ ڈیلرز کے ذریعے ملک بھر میں یکساں قیمتوں پر کسانوں تک انکی دہلیز پر پہنچایا۔یہ وہ بابر علی تھے جن کی 5بڑی صنعتیں جو نصف صدی کی محنت اور جدوجہد کے بعد بزنس میں اپنے عروج پر تھیں کو نیشنلائز کرکے ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے بزنس کو مفلوج کردیا تھا۔سید بابر علی جب بھٹو کی گورنمنٹ میں آئے تو یہ سب کچھ بھول کر اپنے عہد کو نبھایا۔وفا اور دیانت سے بھٹو کی سونپی ہوئی ذمہ داریوں کو پورا کیا۔یہ تھی انکی پاکستان سے محبت۔۔۔۔۔۔۔یہ تھی ان کے کردار کی عظمت۔۔۔۔۔۔۔اوریہ تھا ان کا دیوتا پن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


انہوں نے گورنمنٹ کا دیا ہوا ایک پیسہ بھی ضائع نہیں ہونے دیا۔وہ جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں۔وہ سچ کا بول بالا دیکھنے کے متمنی ہیں۔ملک میں پھیلی ہوئی کرپشن کے بارے میں وہ کہتے ہیں ”یہ جو گھن لگا ہوا ہے‘خون میں گندگی آگئی ہے۔یہ متروکہ املاک کی لوٹ مار سے شروع ہوگئی تھی۔آج کرپشن کینسر کی طرح ملک کی رگ رگ میں سرابت کرچکی ہے“
LUMSکے پرووائس چانسلر کی حیثیت سے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہم نے سچ بولنا ہے‘میرٹ پر کام کرنا ہے 
”WE HAVE TO FACE ALL KIND OF PRESSURES, ALL KIND OF THREATS.WE DID NOT COMPROMISE ON PRINCIPLES.YOU SHOULD LIVE WITH CONFIDENCE AND ABILITY IN YOUR SELF“!!      
بندہ بشر

 (جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -