سید علی گیلانی   ؒ کی عظمت کو سلام!

سید علی گیلانی   ؒ کی عظمت کو سلام!
سید علی گیلانی   ؒ کی عظمت کو سلام!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں 
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر!
یکم ستمبر 2021ء کو عالم اسلام کی معروف ترین شخصیت اور میدانِ جہاد کے بے مثال سالار  سید علی گیلانی    ؒ 92سال کی عمر میں دنیا کے مصائب و مشکلات سے نجات پا کر اللہ کی وسیع جنتوں میں چلے گئے۔سید علی گیلانی   ؒ تاریخ میں حریت کا استعارہ بن چکے ہیں۔ کبھی کسی آزمائش میں نہ حوصلہ ہارا نہ ہتھیار ڈالے۔ وہ صحیح معنوں میں اللہ کے شیر تھے۔ آج کشمیر میں بچہ بچہ آزاد ی کے لیے جان قربان کرنے کا جذبہ اپنے دل میں لیے غاصب اور ناپاک ہندو فوجوں کے خلاف سینہ سپر ہو گیا ہے۔سید علی گیلانی   ؒ جب بھی زبان کھولتے، تو ایک ایک لفظ تول کر یہ پیغام دیتے کہ حق کا غلبہ اللہ نے مقدر کر رکھا ہے اور باطل کو مٹ جانا ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے قربانی دینا لازمی ہوتا ہے۔ منزل کب آئے گی اللہ جانتا ہے، مگر بندہئ مومن کو یقین رکھنا چاہیے کہ وہ منزل ضرور آئے گی۔ 


سید علی گیلانی  ؒ کا بچپن ایک صاحبِ کردار خاندان میں ماں باپ کی تربیت کی وجہ سے بہت شاندار تھا۔ آپ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ آپ کے سکول جانے سے قبل آپ کا خاندان ضلع سوپور میں منتقل ہو گیا۔ یہاں آپ کو ایک پرائمری سکول میں داخل کرایا گیا،جہاں طلبہ کے درمیان علی گیلانی ایک قائد کی حیثیت سے معروف ہو گئے۔ ان کے اساتذہ ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول سوپور سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ اپنے والدین کی اجازت سے آ گئے اور یہاں اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی سے ادیب عالم کی ڈگری حاصل کی۔سید علی گیلانی کو علامہ اقبالؒ اور سید مودودی ؒ سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی۔ علامہ اقبال سے ان کی براہِ راست ملاقات تو نہ ہو سکی، البتہ سید مودودیؒ سے ملے اور بہت متاثر ہوئے۔ 


لاہور سے واپس سری نگر گئے تو اپنے علمی ذوق کے مطابق کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کی سندیں حاصل کیں۔ یوں آپ کو اردو، عربی اور فارسی زبانوں میں پوری مہارت حاصل ہو گئی۔ 1949ء میں آپ سرکاری سکول میں بطور استاد ملازم ہو گئے۔ 12سال تک مختلف سکولوں میں بچوں کو تعلیم و تربیت اور جہاد کی تعلیم دیتے رہے۔ اس دوران سید مودودیؒ کا بیشتر لٹریچر پڑھ لیا۔ آپ نے ملازمت کے دوران ہی 1953ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کی۔ کچھ عرصے کے بعد ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اورآزادانہ کام کرنے کا ارادہ کیا۔ امیر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر جناب سعد الدینؒ نے گیلانی صاحب کو جماعت میں ہمہ وقتی کام کرنے کی دعوت دی۔ اس کام میں ہر طرح کی مشقتوں کا سامنا اور معاشی مشکلات سے دوچار ہونا لازمی تھا، مگر اللہ کے بندے نے اپنے امیر کے حکم پر لبیک کہا اور جماعت کے ہمہ وقتی کارکن بن گئے۔ آپ مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ آپ مختلف اضلاع کی امارت کے بعد قیم جماعت مقبوضہ کشمیر اور ایک دو مرتبہ قائم مقام امیر جماعت کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اس دوران جماعت کے تحت چھپنے والے رسالے ”اذان“ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ 


جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے ریاستی انتخابات میں حصہ لیتی تھی۔ سید علی گیلانی جماعت کے امیدوار کے طور پر پہلی بار 1972ء میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے، پھر 1977ء اور 1987ء میں بھی کامیابی حاصل کی۔ آپ سوپور کے حلقے سے الیکشن لڑتے تھے اور بھاری اکثریت سے جیتتے تھے۔ آپ نے 30اگست 1989ء کو بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج کے طور پر اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں آپ کی کارکردگی ہمیشہ تمام ارکان سے بہتر رہی۔ آپ اسلام، آزادی کشمیر اور الحاق پاکستان کے حق میں اسمبلی اور اس کے باہر ہر جگہ آواز اٹھاتے تھے۔ آپ کے دلائل میں وزن اور لہجے میں جرأت و یقین ہوتا تھا۔ 
کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ ہوا، تو تحریک حریت کشمیر کے نام سے ایک جہادی تنظیم قائم کی گئی۔ جماعت کے ذمہ داران کی طرف سے باقاعدہ ایک تحریری مسودے کے بعد آپ نے 2004ء میں اس میدان میں قدم رکھا، پھر آخری دم تک پوری جرأت و ہمت کے ساتھ یہ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مختلف ناموں سے کام کرنے والی آزادی کی تحریکوں نے آپس میں اتحاد کافیصلہ کیا، تو ”حریت کانفرنس“ کے نام سے ایک اتحاد وجود میں آیا۔ سب جماعتوں نے سید علی گیلانی کو حریت کانفرنس کاچیئرمین منتخب کیا۔ بعد کے زمانے میں جب کچھ جماعتوں نے کانفرنس کے فیصلوں کی خلاف ورزی، تو انھیں الگ کر دیا گیا۔ باقی ماندہ جماعتوں نے علی گیلانی کی قیادت میں اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ 


سید علی گیلانی  ؒ بیسیوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کی سب سے معروف کتاب جو پاکستان میں بھی بہت مقبول ہوئی ”رودادقفس“ ہے۔ اسی طرح آپ نے سیکڑوں کتابچے مختلف موضوعات پر تحریر کیے جن کا مقصد آزادی کے جذبے کو زندہ رکھنا اور کشمیری عوام کی اسلامی تربیت تھا۔ رانسی جیل سے جب آپ رہا ہوئے، تو ”مقتل سے واپسی“ کے نام سے ایک معرکہ آرا کتاب لکھی۔ علامہ اقبال کے بارے میں آپ کی کتاب ”روحِ دین کا شناسا“ دو جلدوں میں چھپی۔ یہ بھی اپنے موضوع پر ایک بے مثال کتاب ہے۔بھارتی مظالم کے خلاف عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اتنا بڑا علمی کام مرحوم کا عظیم کارنامہ ہے۔
سید علی گیلانی   ؒ کی زندگی کے پندرہ سولہ سال بھارتی جیلوں میں گزرے، جب کہ اپنے گھر میں نظر بندی بھی کئی سالوں پر محیط ہے۔ مختلف اوقات میں آپ کو نظربند کیا جاتا رہا۔ آ پ کی وفات بھی اسی نظربندی کے دوران ہوئی۔


سید علی گیلانی  ؒ کو اللہ نے دو بیٹے نعیم گیلانی اور نسیم گیلانی عطا فرمائے۔ نعیم اور اس کی اہلیہ دونوں میڈیکل ڈاکٹر ہیں جو راولپنڈی میں مقیم تھے اور اپنا کلینک چلا رہے تھے، مگر 2010ء میں واپس کشمیر چلے گئے اور اپنے پیشے میں کام کرنے کے ساتھ اپنے والد کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ گیلانی صاحب کے دوسرے بیٹے نسیم زرعی انجینئر ہیں جو زرعی یونیورسٹی سری نگر میں ملازمت کرتے ہیں۔ گیلانی صاحب کی ایک بیٹی فرحت گیلانی جدہ میں ٹیچر ہیں جب کہ ان کے میاں بھی وہاں پر بطور انجینئر ملازمت کر رہے ہیں۔ مشہور کشمیری رہنما ڈاکٹر غلام نبی فائی بھی گیلانی صاحب کے کزن ہیں۔


سید علی گیلانی  ؒ پاکستان کے سچے عاشق تھے۔ پاکستانی حکمرانوں نے وقتاً فوقتاً کشمیر کے مسئلے پر ”حق خودارادیت“ کے موقف سے پسپائی اختیار کر کے احمقانہ فارمولے پیشے کیے۔ ایسے ہر موقع پر سید علی گیلانیؒ کسی لاگ لپیٹ کے بغیر برملا اعلان کرتے کہ ہم پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور الحاق پاکستان کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کا عزم کیے ہوئے ہیں، مگر کسی حکمران کا یہ حق تسلیم نہیں کرتے کہ وہ حق خودارادیت کے طے شدہ اصولوں سے انحراف کرے۔ مسئلہ کشمیر کا ایک ہی حل ہے آزادانہ استصواب رائے۔ سید علی گیلانی کا جسد خاکی تمام تر پابندیوں کے باوجود پاکستان کے پرچم میں لپیٹا گیا۔ مزارِ شہدا سری نگر میں دفن کرنے کی خواہش اور وصیت تو نظرانداز کر دی گئی، مگر ان کی قبر پر حیدرپورہ قبرستان میں نوجوانوں نے پابندیوں کے باوجود پاکستانی پرچم گارڈ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ظالم درندوں نے وہ پرچم وہاں سے غائب کر دیا۔ علی گیلانی کی قبر سے صدا آ رہی ہے:


اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے 
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں 
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
(فیض احمد فیض)

مزید :

رائے -کالم -