اقبال کا ایک شعرہے:
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
اخبارات میں کالم نگاری اب قلم فرسودگی یعنی قلم گھسیٹنے کا شغل بن چکی ہے۔آپ اگر خود کو بہت دانشور سمجھتے ہیں تو لکھتے رہیں،آپ کی کون سنتا ہے؟آپ کو پڑھنے والوں کا تعلق تو اس پرانی نسل پر استوار ہے جو رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جاتی ہے۔عصرِ حاضر کی نسل اردو زبان کے روزمرہ اور محاورہ سے نا آشنائے محض ہے۔ اس کی ایک وجہ میری نظر میں یہ ہے کہ ان محاورات اور روزمرہ کو سمجھانے والے بہت کم ہو گئے ہیں۔سکولوں کا نصاب اگرچہ مرعوب کن طور پر ضخیم ہے لیکن حاصل حصول کیا ہے؟ میرا ایک نواسہ کلاس 9th (Oلیول) کا طالب علم ہے۔اس کے اردو کی نصابی کتاب کا وزن میرے دور کی نصابی کتاب کے وزن سے چار پانچ گنا زیادہ ہے۔
اس نصاب کے مرتبین پر میں کسی قسم کی حرف گیری نہیں کر سکتا۔ہمارے سکول کے زمانے میں اردو زبان کی نصابی کتب کا حصہ ئ نثر اور حصہ ئ نظم آسان اور عام فہم ہوتا تھا۔ حصہ ئ نظم و نثر اس اصول پر مبنی تھا جسے ”آسان سے مشکل“ کی طرف جانے کا اصول کہا جاتا ہے۔ بی۔ ایڈ اور ایم۔ ایڈ کے نصاب میں ان اصولوں کو شامل کیا جاتا اور پڑھایا جاتا تھا۔آج بھی شاید یہ اصول موجود ہوں لیکن جس نصابِ اردو (برائے او(O) لیول) کی بات میں کر رہا ہوں ان کے مرتبین شاید اس اصول سے صرفِ نظر کرنے کی طرف مائل ہیں۔
نثر کے حصے میں ان نثری کتابوں کے وہ ٹکڑے شامل نہیں جو بطور ایک اردو کلاسیک پڑھائے جاتے تھے۔ حصہئ نظم کا حال بھی یہی ہے۔ غالب اور اقبالؒ اردو کے شعراء میں شمار کئے جاتے ہیں لیکن ان کی جو نظمیں اور غزلیں اس نصاب میں شامل ہیں وہ طلباء (اور طالبات) کی ”آسان سے مشکل کی طرف نہیں“ بلکہ ”مشکل سے مشکل تر“ کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ان میں مشکل الفاظ، تلمیحات، استعارات وغیرہ کی بھرمار ہے۔سوال یہ ہے کہ وہ اساتذہ کہاں ہیں جو ہمارے دورِ طالب علمی میں ان نظموں اور غزلوں کی شرح کِیا کرتے تھے۔
سب سے پہلی مشکل یہ ہے کہ ان غزلوں یا نظموں کی قرأت کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔نجی سکولوں کی انتظامیہ نے جن اساتذہ کو بھرتی کر رکھا ہے وہ استحسانی اسباق اور غیر استحسانی اسباق (Non-appreciational Lessons) سے ناآشنا ہیں۔زبان کوئی بھی ہو،سب سے پہلے ان اسباق کو پڑھانے والے اساتذہ کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی قرأت میں موسیقی کے ان نکات کا ادراک کریں جو نظم اور نثر میں امتیاز کرتے ہیں۔
ہمارے سکول کے زمانے میں جو اساتذہ تھے وہ ان امتیازات سے بخوبی آگاہ تھے۔اس لئے وہ پہلے نظم (یا غزل) کی قرأت کرنے میں اپنے طلباء کو اُس موسیقی سے آگاہ کرتے تھے جو نظم کی ساخت میں ظاہر یا پنہاں ہوتی تھی۔ پھر کلاس کے بعض طلباء سے کہا کرتے تھے کہ وہ قرأت کریں۔اگر ان کو معلوم ہوتا تھا کہ ان کا کوئی شاگرد اُس لطف ِ موسیقی سے آشنا نہیں کہ جو غزل یا نظم میں پوشیدہ ہوتی تھی تو وہ کسی ایسے طالب علم کو قرأت کرنے کے لئے کھڑا کر دیتے تھے جو اس فرق کا شناسا ہوا کرتا تھا کہ اس کا تعلق وجدان سے ہے، علم سے نہیں۔ ہماری پود شاید اِس لحاظ سے خوش نصیب تھی کہ اس کے بیشتر اساتذہ میں ذوقِ ترنم موجود تھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ایسے اساتذہ بہت کم رہ گئے ہیں۔
ملک کے بڑے بڑے شہروں میں انگلش میڈیم سکولوں کی افراط ہے۔انگلش کی نصابی کتب میں ایسی منظومات بہت کم ہیں جن میں ردیف یا قافیے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور اگر نثری نظم ہو تو اس میں بھی استعمال کیے گئے الفاظ کی قرأت میں ایک ترنم تو ضرور پایا جاتا ہے۔مجھے یاد ہے ہمارے سکول کے زمانے میں اساتذہ ایسی انگریزی منظومات کو لہک لہک کر پہلے خود پڑھا کرتے تھے اور اس کے بعد طلباء کو کہا جاتا تھا کہ وہ ان کی تقلید کریں۔
اب انگلش میڈیم سکولوں میں کلاسیکی انگریزی شعراء کی منظومات بہت کم دیکھی جاتی ہیں۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ دورِ حاضر میں استحسانی اسباق سے توجہ ہٹا کر سائنس اور کمپیوٹر وغیرہ کے اسباق کی طرف کر دی گئی ہے۔ہمارے دور میں بھی ریاضی،جیومیٹری، الجبرا اور سائنس کے اسباق ہوتے تھے اور ان میں مشقی سوالات بھی ہوتے تھے۔لیکن نجانے آج کے نصاب میں یہ بات بہت کم کم کیوں پائی جاتی ہے۔
میں نے کالم نگاری سے بات شروع کی تھی۔مجھے معلوم ہے کہ اچھے اور پڑھے لکھے گھرانوں میں انگریزی زبان کے اخبارات تو آتے ہیں لیکن اردو زبان کے اخبارات اور میگزین وغیرہ بس برائے نام رہ گئے ہیں۔جب تک ہمارے بچوں کو اردو اخبارات کی عمومی گسترش(Layout) سے آشنا نہیں کیا جائے گا تب تک اردو اخبارات کے قارئین کی تعداد گھٹتی چلی جائے گی۔آج کے کھاتے پیتے گھرانوں میں اردو زبان کے اُن میگزینوں کا بھی قحط ہے جو ہمارے دور میں نہیں تھا۔ہم سکول سے واپس آ کر، ماہِ نو، ادبِ لطیف، صحیفہ، اردو ڈائجسٹ اور فلمی ڈائجسٹ وغیرہ کا مطالعہ بھی کیا کرتے تھے،اگرچہ یہ رسالے ہمارے والدین کے لئے ہوتے تھے۔پرائمری سکول کے بچوں کے لئے تعلیم و تربیت اور نونہال جیسے ماہنامے بازاروں میں عام ملتے تھے۔والدین اپنا فریضہ سمجھتے تھے کہ ان رسالوں کو بازار سے خرید کر گھر میں لائیں اور بچوں کو پڑھنے کی ترغیب دیں۔آج ایسے والدین بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔
انگلش میڈیم سکولوں کے بچوں کو ساتویں اور آٹھویں کلاس میں انگریزی ناولوں سے روشناس کروایا جاتا ہے۔ ایسے ناول پڑھائے جا رہے ہیں جن کا کلاسیکل انگلش لٹریچر سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ان ناولوں کے پلاٹ، کردار اور زبان (ڈائیلاگ وغیرہ) اس طرح کے ہیں جو عصرِ موجود کی انگریزی زبان کے لٹریچر میں تو شمار کئے جاتے ہیں لیکن انگریزی زبان کے جن مشہور ناول نگاروں کی کتب سے ہمیں ایف۔اے، بی۔اے کی کلاسوں میں روشناس کروایا جاتا تھا، وہ کہیں نظر نہیں آتیں۔
ہمارے دور کی فلمیں (اردو، انگریزی، پنجابی) بھی اخذ ِ معلومات کا ایک بڑا وسیلہ ہوتی تھیں۔ہمارے والدین جب کسی پنجابی زبان کی فلم دیکھنے جاتے تو ہم بھی ان کے ساتھ چلے جاتے تھے۔گلیوں میں پنجابی گیتوں کے شوقیہ ”گلو کار“ بھی مفت میں مل جاتے تھے۔شادی بیاہ کی تقریبات میں ان پنجابی زبان کی فلموں کے گیت سنوائے جاتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہم بیک وقت اردو اور پنجابی زبان کی لغت سے آشنا ہو جاتے تھے۔آج یہ صورتِ حال ہے کہ کسی بچے کے سامنے اردو کا کوئی ذرا سا مشکل لفظ بھی بول دیں تو وہ پوچھتے ہیں کہ اس کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟
الیکٹرانک میڈیا کا ہمارے ہاں جو حال ہو گیا ہے اس سے تو آپ واقف ہوں گے، گھر میں شاذ ہی کوئی ٹیلی ویژن آن(ON) ہوتا ہے۔اس کی جگہ اب موبائل فون نے لے لی ہے۔سوشل میڈیا کی یلغار ہے کہ بے پناہ ہے۔ نفرت کی سیاست زدگی عروج پر ہے۔سوشل میڈیا میں سوائے نفرت کی اس سیاست کے اور کسی موضوع پر کوئی پروگرام آن(ON) نہیں کیا جاتا۔جو لوگ فیس بُک یا یو ٹیوب پر20،25 منٹ کا مواد اَپ لوڈ کرتے ہیں،اس نے معاشرے میں تفریق، رقابت اور عدم برداشت کو ہوا دے رکھی ہے۔…… کس کس کا نام لیا جائے……25کروڑ کی آبادی میں 18،20کروڑ لوگوں کے پاس موبائل ہے اور وہ دن رات صبح و شام و شب جب بھی ان کو موقع ملتا ہے وہ اس ”آئینے“ کو سامنے رکھ کر ”چُپ چاپ“ دنیا بھر کے نادیدہ موضوعات کو اپنی دید سے آشنا کرنے میں محو رہتے ہیں۔دونوں کانوں میں ایئر فون ٹھونسا ہوا ہوتا ہے،نگاہیں موبائل کی سکرین پر جمی ہوئی ہیں اور دنیا و مافیہا سے بے خبر یہ لوگ نجانے کتنی انہونیوں کو سچ سمجھ کر بزعم ِ خود لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ اس موضوع کا یہ پہلو بہت طویل ہے اس لئے پھر کبھی سہی۔