اس کے ذہن پر واقعی کوئی بوجھ نہیں تھا،حالات بہت خراب ہیں؟ لوگ روئیے کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں جیسے دنیا پر احسان کر رہے ہوں
مصنف:ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:205
اور پھر 9ماہ بعد دکان کی اس شاخ کے مالک نے مجھے اپنے دفتر بلایا۔ میری اس سے ملاقات صرف2 مرتبہ ہوئی تھی۔ وہ بہت مصروف شخص تھا اور جہاں میں منیجر تھا، اس جیسی 30 شاخوں کا وہ مالک تھا۔ اور جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ جائیداد کی خریدوفروخت پر مبنی اس کا ایک بہت بڑا کاروبار ہے۔ ملاقات شروع ہونے کے دو منٹ بعد ہی وہ مجھ سے کہنے لگا ”اس شہر کے شمالی حصے میں واقع100 گھروں پر مشتمل ایک عظیم عمارت کے انتظام کے لیے میں، وہاں تمہیں اسسٹنٹ منیجر کی حیثیت سے ملازمت دینا چاہتا ہوں۔ یہ عمارت میری ملکیت ہے۔“
وولگا نے مجھے بتایا ”میں اس کی یہ پیشکش سن کر ششدرہ گیا۔ میں نے اپنے بتایا کہ پیشے کے لحاظ سے میں ایک پلمبر ہوں اور گھریلو عمارت کے انتظام و انصرام کے متعلق مجھے قطعی طور پر کچھ معلوم نہیں ہے۔“ میری بات سن کر وہ مسکرایا اور کہنے لگا ”میں نے فاسٹ فوڈ سٹور میں تمہاری کارکردگی دیکھی ہے، تم نے منافع میں 33فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ بنیادی طور پر100 گھروں پر مشتمل عمارت کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے اس مہارت اور صلاحیت کی ضرورت ہے، جس مہارت اور صلاحیت کا تم نے فاسٹ فوڈ سٹور کے ضمن میں مظاہرہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ماتحت عملے کے لیے تحریک و ترغیب اور انہیں ذمہ داری سونپنے کے لیے مہارت اور صلاحیت درکار ہے، جو تم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ مجھے یقینی طور پر علم ہے کہ تم اس عمارت کو مکمل طور پر آباد رکھنے، مقررہ وقت پر کرایہ وصول کرنے اور عمارت کی مرمت کے ضمن میں بہترین طرائق آزمانے کے ضمن میں میری مدد کر سکتے ہو۔“
وولگانے اپنی بات جاری رکھی ”میں نے یہ ملازمت حاصل کر لی، میری تنخواہ بھی پہلے سے 3 گناہ زیادہ ہوگئی، مجھے ایک نہایت شاندار گھر بھر مل گیا۔2سال قبل کا واقعہ ہے۔ اب میں یہاں سینئر منیجر ہوں اور جلد ہی میرے پاس اس قدر رقم جمع ہو جائے گی کہ میں اپنا ذاتی کاروبار شروع کر سکوں۔“
میں نے استفسار کیا ”کس قسم کا کاروبار؟“
وولگا نے جواب دیا ”پلمنگ کا تھوک کا روبار“
اور اسی دن شام کو واپس پر ہوائی جہاز میں میری ملاقات اور گفتگو، بیروزگاری کے حکومتی محکمے کے ایک منیجر کے ساتھ ہوئی۔ اس کے ذہن پر واقعی کوئی بوجھ نہیں تھا۔ اس نے مجھے بتایا، ”ہر ہفتے بے روزگاری کے ضمن میں رقم وصول کرنے کے حوالے سے سینکڑوں درخواستیں پر مجھے غور کرنا پڑتا ہے۔لو گ میرے پاس آتے ہیں اور میں ان سے پوچھتا ہوں، تم ملازمت حاصل کرنے کے ضمن میں کیا کوشش کر رہے ہو؟ لوگوں کی اکثریت یہی کہتی ہے مجھے دوبارہ نہیں بلایا گیا، مجھے کوئی ملازمت نہیں دیتا، حالات بہت خراب ہیں، اور وہ پھر مجھ سے پوچھتے ہیں، میرے پاس اب کتنے ہفتے باقی رہ گئے ہیں؟ یہ لوگ اس قسم کے روئیے کے ذریعے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے یہ دنیا پر احسان کر رہے ہوں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت یا اس کا یہ محکمہ مشکل حالات میں ان کے نان نققے کا ذمہ دار ہے۔ اب تک کبھی نہیں ہوا کہ یہ لوگ ملازمت کے لیے کوشش کرتے ہوں لیکن اگر ان لوگوں کی اکثریت ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ کوشش کرے تو ملازمت حاصل کرسکتی ہے۔“
میرا ہمراہی بالکل درست کہہ رہا تھا۔
جب تک انسانی ضروریات و خواہشات تشنہ رہتی ہوں، کوئی وجہ نہیں کہ لوگ بیروزگار ہوں۔ جو شخص ایک مناسب اور معقول حد تک جسمانی اور ذہنی طور پر مستعد اور صحت مند ہے، اس کے لیے روزگار اور ملازمت کی کوئی کمی نہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔