دفعہ62،63.... نتائج اور اثرات

دفعہ62،63.... نتائج اور اثرات

  

”پاکستان میں آئینی ارتقائ“ کے موضوع پر کلاس میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہر جمہوری یا فوجی ڈکٹیٹر نے آئین کے گلے میں کوئی نہ کوئی تعویز لٹکانا ضروری سمجھا۔ آئینی ترامیم کی یہ تاریخ اپنے دامن میں بہت سے تلخ و شیریں حقائق اور یادیں سمیٹے ہوئے ہے، لیکن یادش بخیر۔ ہماری قوم آٹھویں ترمیم کو کیسے بھول سکتی ہے۔ اسی وجہ سے شہید یا مرحوم جنرل محمد ضیاءالحق بھی یاد آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ عالم ارواح میں اُن کی روح آج بھی یہ گنگنا رہی ہے کہ:

.... مجھے تم کبھی بھی بُھلا نہ سکو گے

آج ریٹرننگ افسروںکو روک دیا گیا ہے کہ انتخابی امیدواروں سے متنازعہ سوالات نہ پوچھے جائیں۔ ریٹرننگ افسران جو زیادہ تر اس ملک کی محترم عدلیہ سے متعلق ہیں، غالباً ایک ہی طرح کے مقدمات، استغاثہ، صفائی اور گواہوں کے جھوٹے سچے بیانات سن سن کر اُکتائے ہوئے تھے، لہٰذا انہوں نے انتخابی امیدواروں کو بھی ملزم گردانتے ہوئے ہر طرح کے سوالوں کی گردان شروع کر دی۔ ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ ریٹرننگ افسروں کے ان سوالوں کا ملک کے اندر موجود سیاسی رہنماﺅں نے زیادہ بُرا نہیں منایا، جبکہ ملک سے باہر تشریف فرما ایک ”قائد تحریک“ کو یہ سوالات بہت زیادہ بُرے لگے، حالانکہ ان کی تحریک کے جتنے رہنما بھی ٹی وی ٹاک شوز یا اخباری فورموں میں اظہار خیال کرتے ہیں، وہ اکثر اپنے حریفوں کو پچھاڑنے کی کامیاب کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی تحریک کے انتخابی امیدوار تو ریٹرننگ افسروں کے ہر طرح کے سوال کا جواب دے سکتے ہیں، کیونکہ وہ سوال سننے کی بجائے جواب دیتے چلے جاتے ہیں۔

ریٹرننگ افسروں کی اس”سنجیدہ“ کاوش کو کسی ظالم نے ”مزاحیہ ڈرامہ“ قرار دے دیا۔ ہمارے خیال میں یہ بھی سرا سر زیادتی ہے۔ اس سنجیدہ کاوش کی وجہ سے ہی تو قوم کو پہلی بار زیادہ سے زیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ لوڈشیڈنگ کی ماری، سی این جی کی ستم رسیدہ، مہنگائی اور غربت کی چکی میں پستی، یوٹیلٹی بلوں کی استحصال زدہ مظلوم اور مجبور قوم کو پہلی بار ٹی وی کیمرے نے دکھایا ہے کہ آپ کے غم میں نڈھال صرف تقریروں اور تصویروں میں آنسو بہانے والے سیاسی رہنما کتنے کروڑوں اربوں کے نادہندہ ہیں اور کون کون بااثر کتنے قرضے بینکوں سے معاف کروا چکا ہے۔ ظالم کیمرے نے تو یہ بھی دکھا دیا ہے کہ کون کون غریبوں کا ہمدرد کتنے کتنے کروڑوں کی گاڑی میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروانے آیا ہے۔ کیمرے کی آنکھ سے ہی تو قوم نے دیکھا ہے کہ اپنے حلقے کا ایک محبوب سیاسی رہنما گدھا گاڑی پر اپنے کاغذات جمع کروانے جا رہا ہے۔ اس کے بعد اسی ”ریسکیو1122“ کے بہتے آنسو بھی اس ظالم کیمرے نے دکھائے۔ (اس حلقے کے عوام اپنے اس محبوب قائد کو اسی نام سے پکارتے ہیں)۔

ہر درد مند دل رکھنے والے کو جمشید دستی کے بہتے آنسوﺅں کا افسوس ہوا، لیکن یہ دفعہ62،63 کیمرے سے بھی ظالم چیز ہے۔ اس میں صادق اور امین ہونے کی شرط نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ گزشتہ الیکشن میں دستی نے ڈگری یافتہ ہونے کا دعویٰ کیوں کیا تھا۔ وہی جھوٹا دعویٰ دستی کو لے بیٹھا۔ اس سے بھی زیادہ نازک معاملہ ممتاز کالم نگار ایاز امیر کا ہے۔ موصوف کے قلم کی بے باکی اور جرا¿ت مندی کا کون منکر ہو سکتا ہے، لیکن قلم کا اتنا بے سمت چلنا بھی کیا کہ جس آئین کے تحت ممتاز کالم نگار اور ممبر قومی اسمبلی غالباً دو تین بار حلف اُٹھا چکے ہیں، اسی آئین میں موجود دفعہ 62،63 اور ان دفعات کے نتائج و عواقب کو بھول گئے یا پھر نظریہ ¿ پاکستان کی ان کی اپنی جو تشریح ہے، اس تشریح کی وجہ سے بحیثیت ممبر پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کروا لیتے تاکہ آج ان کو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ نظریہ¿ پاکستان کی مختلف تشریحات کوئی آج پہلی بار اچانک تھوڑی سامنے آئی ہیں۔یہ تو قبل از قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہیں اور نہ جانے کب تک رہیں گی۔

نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا ملک غالبا دُنیا کا واحد ملک ہے، جس میں اس ملک کے بنیادی نظریے اور سلامتی کے خلاف سیاسی تنظیمیں اور جماعتیں سرگرم عمل رہتی ہیں۔ سیاسی پنڈت اسے بھی جمہوریت کا حسن کہتے ہیں۔ ان دِنوں اس حسن کا بانک پن اتنا بڑھ گیا کہ بانی ¿ پاکستان حضرت قائداعظم ؒ کے بارے میں بھی ہرزہ سرائی کی گئی کہ کیا وہ دفعہ62،63 پر پورا اترتے تھے۔ محب وطن حلقوں کو یہ بات بہت ناگوار گزری ہے کہ کرپٹ سیاست دان اپنی نااہلی اور کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لئے بانی ¿ پاکستان کو بھی معاف کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اسی طرح موجودہ دور کے ڈاکٹر گوئبلز رحمن ملک نے نیا فقرہ تلاش کیا ہے کہ اس ملک میں صرف وہی صادق اور امین ہیں، جن کا نام صادق اور امین ہے۔ واضح رہے کہ ان میں بھی ان کا اپنا کوئی کمال نہیں ہے، کیونکہ ان کے والدین نے جب ان کے یہ نام رکھے تھے، اس وقت تو انہوں نے ہوش ہی نہیں سنبھالا تھا اور انہیں ان ناموں کے معانی کیسے معلوم ہو سکتے تھے۔ ان دونوں ناموں کے اصل معانی تو ہمارے انتخابی امیدواروں کو پہلی بار معلوم ہو رہے ہیں۔

بہت سے تعلیم یافتہ افراد کو غالباً پہلی بار ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ 62،63 کا اصل متن تو معلوم کیا جائے۔ وہ کیا الفاظ ہیں، جو کئی نامی گرامی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان دنوں” آئین پاکستان 1973ئ“ کی بہت سی کاپیاں فروخت ہوئی ہوں گی، لیکن اکثر سماجی ماہرین کے خیال میں ہماری قوم کی اکثریت اکثر زیادہ سنجیدہ نہیں ہوتی اور پڑھنے لکھنے اور اصل حقائق جاننے کی طرف نہیں آتی اور اپنی غلطی تسلیم کر لینے کا رجحان تو بہت ہی کم ہے۔ کئی مفادات، کئی مصلحتیں اور سب سے بڑھ کر ذاتی انا آڑے آ جاتی ہے۔ نتیجتاً وہ اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لئے شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں، بنائے ہوئے کروڑوں، اربوں روپوں میں سے اس ”نیک کام“ پر مزید لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنی تمام تر ذہانت اسی کام، بلکہ ”مشن“ پر آزماتے ہیں، لیکن اکثر یہی ہوتا دیکھا ہے کہ سات پردوں میں سے جھوٹ بالآخر آشکار ہو کر ہی رہتا ہے۔

دفعہ62،63 کے ساتھ ساتھ آئین کی دفعہ 6بھی مشہور ہونا شروع ہو گئی ہے۔اس دفعہ کی مشہوری کی اصل وجہ تو سابق صدر اور جنرل (ر) پرویز مشرف ہیں، جن سے ٹی وی اینکر حیران ہو کر پوچھ رہے ہیں کہ جنرل صاحب کیا آپ نے ملک واپس آنے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ وہ اپنی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کی وجہ سے ہر تلخ سے تلخ اور آڑے ترچھے سوال کا جواب تو کمال ہنر مندی سے دیتے ہیں، لیکن یہ ظالم ٹی وی کیمرہ اور پھر چہرے کا کلوز اپ بھری بزم میں اصل راز کی بات ضرور کہہ دیتا ہے۔ حضرت علامہ اقبال ؒ کا بہت خوبصورت اور بانکا شعر یاد آ جاتا ہے:

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی

بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں

میڈیا کا ذکر بار بار آ رہا ہے، تو الیکشن کمیشن کے نئے متعارف کردہ15نکاتی صحافتی ضابطہ ¿ اخلاق کا بھی مختصر ذکر ہو جائے۔ اس ضابطہ ¿ اخلاق میں بھی کچھ اصول ایسے شامل کر لئے گئے ہیں، جو عملی طور پر ممکن نظر نہیں آ رہے.... مثلاً ریڈیو ٹی وی چینلز کسی سیاسی پارٹی کی انتخابی مہم نہیں چلائیں گے۔ یہ اصول دُنیا بھر میں اشتہاری ضابطہ ¿ اخلاق کے خلاف ہے۔ میڈیا اشتہارات سے وصول ہونے والی آمدنی کی بنیاد پر ہی تو چلتا ہے، لہٰذا میڈیا کو اس جائز آمدنی کے عمل سے روکا نہیں جا سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما اپنے اشتہاروں اور ٹاک شوز وغیرہ میں ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اُچھالیں، البتہ دستاویزی ثبوت کے ساتھ بات کرنے سے کون روک سکتا ہے۔ اسی طرح جعلی ڈگریوں کی بات چل نکلی ہے، تو لگتا ہے کہ بہت دُور تلک جائے گی۔ بہت سے دستانے پہنے ہاتھ اور نقاب اوڑھے چہرے سامنے آئیں گے۔ البتہ اعتراضات کے اس عمل میں سب سے دلچسپ شیخ رشید کے کنوارے پن پر ”اعتراض“ تھا۔ ان کے مہربان 1996ءمیں اُن کی ایک خفیہ شادی کی بات کرتے رہے، لیکن واضح ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ٹی وی چینلوں کا محبوب سیاسی رہنما بچ نکلا۔  ٭

مزید :

کالم -