سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، قسط نمبر 55

سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، قسط نمبر 55
سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، قسط نمبر 55

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرے لوگ جو مجھ سے محبت کرتے ہیں ان کی نظروں میں مجھے گرانے کی کوشش کی گئی۔ان حالات میں ٹیم کی قیادت کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ میں نے کپتانی چھوڑ دی۔ بیسویں صدی کے آخری دو تین سال بڑے اذیت ناک تھے۔مجھے یاد ہے کہ جب میں نے کہا کہ میں کپتانی سے سبکدوش ہونا چاہتاہوں کیونکہ میں افواہوں میں گھر چکا ہوں تو کسی نے مجھے تسلی نہیں دی۔کسی نے مجھے روکا نہیں رسمی طور پر بھی اظہار ہمدردی نہیں کیا، تمام الزامات کا مجھے خود ہی مقابلہ کرنا پڑا،بورڈ کے عہدیدار خاموش تماشائی بنے رہے۔انتہا یہ تھی کہ سلیکٹرز نے مجھے ٹیم سے ڈراپ کر دیا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب لنکا شائر میں میرا آخری سال تھا۔ میں لنکا شائر کا کپتان تھا۔میں نے کندھے کا آپریشن کرایا تھا۔ اس کے بعد میں فٹ ہو کر کھیلنے کی تیاری کررہا تھا۔ اس سے پہلے ہوم سیریز میں ویسٹ انڈیز کو0-3سے ہراچکا تھا۔ کافی مطمئن تھا کہ اچانک مجھے اطلاع ملی کہ مجھے پاکستان ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیاہے۔ سلیکٹرز نے مجھے باہر کر دیا۔ مجھے ایسا لگا کہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میری دنیا تاریک ہو گئی۔میں نے الزامات سے دامن چھڑانے کے لئے کپتانی چھوڑ دی لیکن نحوست کے سائے میرا تعاقب کررہے تھے۔
قسط نمبر 54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

راشد لطیف کی قیادت میں جنوبی افریقہ کے دورے کے لئے جو ٹیم منتخب کی گئی اس میں میرا نام نہیں تھا۔ مجھے یہ سن کر سخت صدمہ پہنچا۔سلیکٹرز نے مجھے ٹیم سے نکال دیا۔کیا میری کرکٹ ختم ہو گئی؟کیا میرا کیرئیر باقی نہیں رہا؟کیا میں آؤٹ نہیں کررہا؟رنز نہیں بنا رہا؟پھر مجھے ملک کے لئے کھیلنے سے کیوں روک دیا گیا۔ میں جتنا سوچتا اتنا ہی پریشان ہوتا۔بے شک یہ میری زندگی کا سب سے اذیت ناک دور تھا۔ ایک ہی سوال میرے سامنے تھا کہ آخر مجھے سلیکٹ کیوں نہیں کیا گیا؟اس آڑے وقت میں کوئی ایسا نہیں تھا جو میرا ساتھ دیتا۔ کسی نے میری حمایت میں بیان نہیں دیا۔پشاور سے کراچی تک میرے لئے کوئی آواز نہیں اٹھی۔ کسی نے نہیں کہا کہ اس کو ٹیم میں واپس لاؤ۔میں ٹیم سے باہر ہو گیا۔میرا دل ٹوٹ گیا۔ میں اچانک ہیرو سے زیرو ہو گیا۔ میرے حامی، میرے پرستار حیران ضرور ہوئے ہوں گے لیکن کسی نے آواز بلند نہیں کی میں نے ملک کے لئے کتنے ہی کارنامے انجام دیئے فتوحات حاصل کیں ورلڈ کپ جتوایا کتنے ہی بڑے ریکارڈ توڑے کئی نئے عالمی ریکارڈ بنائے،لیکن لوگ سب کچھ بھول گئے۔میں نے اپنے خیال لگائے جانے والے الزامات کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔پاکستان میں بڑے بڑے حکام سے ملا۔ سیاستدانوں اور ملک کے حکمرانوں سے فریاد کی۔ سب کو یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا کہ میں بے قصور ہوں۔میرے کردار پرجو گندگی اچھالی جارہی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔الزام لگانے والے کوئی ثبوت لائیں ان کے پاس ثابت کرنے کو کچھ نہیں۔وہ میرا کیرئیر تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔کرکٹ بورڈ کے نئے سربراہ خالد محمود نے میری بات غور سے سنی اور انہوں نے ٹیم میں میری جگہ بحال کر دی۔ میں نے جنوبی ا فریقہ کے خلاف سیریز آخری ٹیسٹ کھیلا۔ لیکن الزامات سے مجھے بری نہیں کیا گیا۔ میرا ضمیر مطمئن تھا۔میں نے سوچا کہ بڑے بڑے رہنماؤں پر الزامات لگتے رہے ہیں دستور ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں۔جب میرا ضمیر مطمئن ہے تو میں بھی مطمئن ہوں۔
مگر اذیت کا وہ عرصہ میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔ جب میرے گھر والوں کو دھمکیاں ملیں۔مجھے قتل کرنے اور اغواء کرنے کی دھمکی دی گئی۔ میرے گھر کے افراد کو اغواء کرنے کی دھمکی دی گئی۔میرے بھائیوں کو دھمکیاں ملیں۔میری بھتیجیاں جو اسکول میں پڑھتی تھیں ان کو اغواء کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔مقصد یہ تھا کہ میں کرٹک چھوڑ دوں۔اس سب کا یہی ایک مقصد تھا۔ خالد محمود نے مجھے اس اذیت سے نکالا۔انہوں نے ٹیم میں مجھے ایک بار پھر اسی مقام پر فائز کر دیا، میں نے1999ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی قیادت کی۔ ہماری ٹیم ابتداء میں فیورٹ نہیں تھی، لیکن ہم نے اپنے کھیل سے سب کو متاثر کیا اور خدا کا شکر ہے کہ فائنل تک پہنچے۔

فائنل میں آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم سے ہار گئے۔مگر میرے عذابوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ورلڈ کپ کے فائنل میں شکست نے پھر طوفان کھڑا کر دیا۔ حالانکہ پڑوسی ملک بھارت جہاں بھرپور تیاری کی گئی تھی کچھ نہیں ہوا۔ان کی ٹیم سپر سکس سے آگے نہ بڑھ سکی مگر وہاں کوئی عذاب نہ آیا۔ہمارے یہاں طوفان آیا۔اس طوفان میں بورڈ تبدیل ہو گیا۔نئے عہدیداروں نے میرا موقف مان لیا اور مجھے کپتانی دوبارہ مل گئی۔اس بار میں بہت خوفزدہ تھا کہ کہیں پھر یہ میرے لئے کچھ نئی اذیتوں کا باعث نہ بنے اس لئے میں نے خود ہی اس سے چھٹکارا پالیا۔میں اب کسی نئے عذاب کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اس لئے منتخب مقابلوں میں شرکت کرنا چاہتا ہوں۔ایسے مقابلوں میں جہاں میری ضرورت ہو جہاں میں ملک کو فتح دلا سکو۔جہاں مجھ پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔جاری ہے

قسط نمبر  56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔