اٹھائیسویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ

Apr 10, 2017 | 03:49 PM

ان کے علاوہ علاقہ چھچھ میں مندرجہ ذیل افغان قبائل بھی آباد ہیں مثلاً سید خیل، نسوزئی، ماموزئی، بڑیس، مرکی خیل، عمر زئی، ببوتی، مایار، میانہ، برہ زئی، سروانی، خگوانی، شیرانی، پیر زئی، عدل زئی، فرملی، خورہ خیل وگیرہ ان سب قبائل کی شاخیں اور ہم نسل لوگ انہی ناموں سے دریائے سندھ سے مغرب کی طرف علاقہ یوسفزئی کے سمہ(ضلع مردان) بونیر، سوات اور دیر باجوڑ میں بھی آباد ہیں۔ قبائل فرملی اورغرغشتی چھچھ آنے سے قبل علاقہ یوسفزئی کے تپہ روڈ موضع فرملی نزد شیوعا اور تپہ خودو خیل کے موضع غرغشتی نزد طوطالی میں آباد ہو چکے تھے وہ گاؤں جسمیں یہ لوگ نہیں ہیں پھر بھی اب تک انہی کے ناموں سے موسوم ہیں۔

ساتائیسیوں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایف اے رابرٹ سن علاقہ چھچھ کے بندوبست کے بارے میں گزٹیر راولپنڈی ۱۸۸۵ء میں یوں اظہار خیال کرتاہے:
’’پٹھانوں کا بندوبست دوحصوں پر مشتمل ہے ایک ضلع کے شمال مغربی کونے پر تحصیل پنڈی گھیپ میں مکھڈ کے آس پاس جو ساغری پٹھان(بلاق خٹک) کہلاتے ہیں۔ دوسرا تحصیل اٹک علاقہ چھچھ میں یوسفزئی آباد ہیں۔ جو پشاور ضلع کی تحصیل صوابی سے دریائے سندھ کی مخالف سمت میں واقع ہے۔ پٹھانوں کے ان دونوں علاقوں کے درمیان، دریائے سندھ کے کنارے پر کھٹڑ اور قطب شاہی آوان آباد ہیں۔ چھچھ اور برہان کے علاقہ کا پٹھان آپس میں مل جل کر ایک قبیلہ چلا آرہا ہے ۔ وہ عموماً بہت ہی عمدہ کاشتکار ہیں۔ اور دریائے سندھ کیک پار اپنی برادری سے مختلف نہیں ہیں۔ اور نہ ہی ان میں کوئی مختلف خاندان بنے ہیں۔ اس وقت کے مشہور خوانین تحصیل اٹک میں حسب ذیل ہیں: میر عالم خان سکنہ غورغشی، آصف خان سکنہ ملک مالہ، امیر خان سکنہ ویسہ، علی اکبر خان سکنہ یاسین، اکبر خان سکنہ برہان اور غزن خان پٹھان جو اپنی وفاداری کے لئے مشہور ہے اور جس نے قضیہ پٹنہ ستارہ کے سلسلہ میں بہترین خدمات انجام دیں۔ جس کے سلہ میں تحصیل کہوٹہ میں انہیں ایک اچھی ریاست ملی ہے:‘‘
چھچھ کے موضع غرگژتی میں سید و خیل، عنایت خیل، ساہل خیل، کاکڑ، مٹہ خیل اسحاق زئی، سرما خیل وغیرہ آباد ہیں۔ کنج پورہ ریاست (جس کا ذکر احمد شاہ ابدالی اور مرہٹہ جنگ میں ہو چکا ہے) کی سربراہی سرما خیل غرغشتی کے پاس تھی۔
اوپر کے بیانات سے اس امر کی تصدیق تو ہو جاتی ہے کہ یوسفزئی وقتاً فوقتاً دیر سوات ، بونیر اور سمہ، علاقہ یوسفزئی سے نقل مکانی کرکے اپنے اپنے خاندانوں سے جدا ہو کر علاقہ چھچھ میں آکر آباد ہوگئے تھے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ انگریز کے اس علاقے پر قابض ہونے سے قبل کے مکمل حالات باوجود سخت جستجو کے نہیں مل سکے جن پر کچھ روشنی ڈالی جاتی۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ یہ لوگ اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ مصروف جنگ و جدل رہے اور بربریت کے جو مظاہرے بونیر سوات اورصوبہ سرحد کے افغانوں پر مغل، سکھ اور انگریز حکمرانوں کی طرف سے ہوتے رہے ان میں پہلا نشانہ یہی بنتے رہے۔
ککی زئی یا ککا زئی۔۔۔ترکانڑی، افغان اور پناجب۔
بیان کیا جاتا ہے کہ جس وقت ملک احمد یوسفزیوں کو لے کر افغانستان سے نکلے تو تر کانڑی لمغان میں مقیم رہے۔ جہاں ان کی اپنی ریاست تھی۔ کچھ عرصہ بعد حکومت مغلیہ کابل سے ان کی کش مکش ہوئی تو وہاں سے نکل جانے پر مجبور ہوئے اس وقت یوسفزئی دو آبہ اشنغر، سوات ، دیر اور باجوڑ پر قابض ہو چکے تھے۔ تر کانڑیوں نے خان گجو سے پناہ دینے کی درخواست کی تو ان کو باجوڑ میں مقیم ہونے کی اجازت ملی۔ یوسفزیوں کے ساتھ ان کے تعلقات ابتدا ہی سے خوشگوار تھے اور یہاں آنے پر آپس میں ایسے گل مل گئے کہ دونوں میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا۔ ترکانڑی دو حصوں میں منقسم ہیں یعنی ترک کے دو بیٹے تھے۔ ایک موسیٰ دوسرا شعیب۔
موسیٰ کی اولاد:
(۱) محمود (لوئے ماموند) (۲) (اسمعیل زئی، اس کی چار ذیلی شاخیں ہیں۔ وڑو کے ماموند، نون، اکا اور کٹور)(۳) حسن (۴) عیسیٰ (ایسوزئی) ۵ مد سے جس کے بیٹے خواجے، معروف اور الیاس ہیں (۶) ہارون (۷) مور۔
باجوڑ میں مقیم ہوتے وقت اسمعیل زئی کے چند گھرانے جو کٹور کہلاتے تھے بدخشاں اور چترال کی طرف اور نون ، پنجاب کی طرف چلے گئے تھے اور ککے زئی جولوئے ماموند کی ایک شاخ ہے۔ اس کے اکثر لوگ پنجاب میں جالندھر، لاہور گوجرانوالہ بٹالہ اور سیالکوٹ کی طرف گئے اور وہاں مقیم ہوئے۔ ایسوزئی کی ذیلی شاخیں یہ ہیں: مست خیل، علی بی خیل موسیٰ خیل، شاہی خیل، مندے زئی اور سین زئیا ور ان میں شاخ مست خیل سے خان عمرا خان جندولی متعلق تھا۔ اور ایسوزئی کی ذیلی شاخ موسیٰ خیل سے میاں عمر صاحب چمکنی متعلق ہیں۔
شعیب کی اولاد
یہ افغانستان میں ہی رہ گئے تھے اور ابھی تک وہیں مقیم ہیں اور لمغان میں سرہ قلعہ اور علاقہ سہ صدہ ونیز سرخ رود و ننگر ہار کے مختلف مقامات میں آباد ہیں۔
چونکہ ترکانٹریوں کا شجرہ نسب آج تک کوئی مورخ بھی مرتب نہیں کر سکا تھا۔ جس سے میری راہنمائی ہوتی لہٰذا مجھے اسے مرتب کرنے میں کافی تگ و دو اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان علاقوں میں مجھے کئی بار جانا پڑاجہاں یہ قبیلے آباد ہیں۔ چنانچہ کچھ وہاں کے معمر ترین افراد کی مدد سے اور کچھ تاریخ ابراہیم بٹنی کے قلمی نسخہ سے جو مجھے میسر آیا ان کے شجرہ ہات نسب مرتب کئے جو آنے والی نسلوں اور پڑھنے والوں کے لئے ضروری دلچسپی کا باعث ہوں گے۔

جاری ہے۔ انتیسویں قسط پڑھنےکیلئے یہاں کلک کریں

  پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔

مزیدخبریں