جنرل پرویز مشرف بنی گالہ کی محفل میں شوکت عزیز کا انتظار کر رہے تھے
تجزیہ: قدرت اللہ
نوازشریف کی دوسری حکومت کے خاتمے اور جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو سیاسی منظر افق سیاست پر ابھرا اس پر تمام بڑے بڑے سیاسی کھلاڑی اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو خود جنرل پرویز مشرف نے اس وقت اپنی خودنوشت سوانح لکھی تھی جب ان کے اقتدار کا سورج ابھی نصف النہار پر تھا۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں تھی اور امریکہ کے مشہور اشاعتی ادارے نے شائع کی تھی۔ چونکہ مصنف صدر پاکستان تھے اس لئے ان کے فرمودات پر پوری دنیا گوش بر آواز تھی۔ یہ کتاب بڑی تعداد مین بکی جس کی رائلٹی بھی جنرل پرویز مشرف کو لاکھوں ڈالر میں ملی، انگریزی ایڈیشن ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ کے بعد اردو ترجمہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے عنوان سے چھپا، اس کے کئی سال بعد ان کے فوجی ساتھی لیفٹیننٹ جنرل شاہد نے ’’یہ جرم خاموشی کب تک؟‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں بعض چونکا دینے والے انکشافات بھی ہیں۔ اگرچہ جنرل پرویز مشرف ان انکشافات کے بارے میں بڑے سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں تاہم مصنف ان کی صداقت پر قائم ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیراعظم رہنے والے شوکت عزیز نے بھی اپنی ایک سوانح عمری لکھی جس میں انہوں نے اپنی بینکاری سے لے کر وزیراعظم کے عہدے تک پہنچنے کے سفر کی داستان لکھی ہے۔ اس میں کتنا سچ ہے اور سچ پر کتنی ملمع کاری ہے یہ تو اقتدار کی راہداریوں میں آنے جانے والوں کو ہی علم ہوگا ہمارے جیسے لوگ تو بس اتنا جانتے ہیں کہ آج کل جنرل پرویز مشرف اپنے سابق وزیراعظم سے زیادہ خوش نہیں ہیں اور یہ تک کہہ چکے ہیں کہ شوکت عزیز نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ اس کی تفصیلات تو دستیاب نہیں ممکن ہے کسی وقت منظرعام پر آئیں لیکن پاکستان مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے ’’سچ تو یہ ہے‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب میں شوکت عزیز کے بارے میں جو تاثرات لکھے ہیں وہ بھی خاصے دلچسپ ہیں۔ آپ یہ تو جانتے ہی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے شوکت عزیز کو بیرون ملک سے بلاکر اپنی کابینہ میں وزیر خزانہ کا عہدہ سونپا تھا، ان کا یہ خیال تھا کہ وہ ’’ٹیکنو کریٹ‘‘ ہیں اس لئے وہ وزیر خزانہ سے آگے بڑھ کر وزارت عظمیٰ بھی سنبھال سکتے ہیں، اسی لئے انہوں نے شوکت عزیز کے اچھے مستقبل کے منصوبے بنانا شروع کردیئے تھے۔ 2002ء میں الیکشن ہوئے تو پاکستان مسلم لیگ جس کے سربراہ چودھری شجاعت حسین تھے، ایوان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تاہم اس کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں تھی۔ تقریباً سارے ہی آزاد ارکان نے مسلم لیگ (ق) کی حمایت کردی تھی پھر بھی حکومت نہیں بن پا رہی تھی۔ اس مقصد کیلئے پیپلز پارٹی میں سے ایک نیا دھڑا نکالا گیا جس نے اپنے آپ کو پیٹریاٹس کہلانا پسند کیا کیونکہ اس دھڑے کے نزدیک مسلم لیگ کی حکومت بنوانا حب الوطنی کا تقاضا تھا یوں تمام تر توڑ جوڑ کے بعد میر ظفراللہ جمالی وزیراعظم بن گئے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کو اس وقت تک از راہ محبت ’’باس‘‘ کہتے رہے جب تک انہوں نے انہیں ہٹانے کا فیصلہ نہیں کرلیا۔ جنرل پرویز مشرف نے میر ظفراللہ جمالی کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا یہ چودھری شجاعت حسین کی زبانی سنیے لکھتے ہیں:
’’ایک روز صدر پرویز مشرف نے مجھے اور پرویز الٰہی کو بلایا کہنے لگے ایک تو وزیراعظم صاحب اٹھتے ہی بارہ بجے ہیں دوسرے ان کے دورۂ امریکہ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں بطور وزیراعظم میں ان کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں ہوں آپ ان سے کہیں کہ وہ مستعفی ہو جائیں‘‘۔ جب کئی دن کے وقفے کے بعد میر ظفراللہ جمالی استعفا دینے کیلئے تیار ہوئے تو مسلم لیگ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس رکھی گئی۔ صدر پرویز مشرف کی خواہش تھی کہ جمالی صاحب خود شوکت عزیز کا نام اگلے وزیراعظم کیلئے تجویز کریں لیکن جمالی صاحب اس کیلئے تیار نہیں تھے۔ چودھری شجاعت کا کہنا ہے کہ ہمارے بار بار کے اصرار پر بھی وہ اس پر تیار نہیں ہوئے۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے اپنے استعفے کا اعلان تو کردیا آئندہ وزیراعظم کیلئے شوکت عزیز کا نام نہیں لیا اس پر چودھری شجاعت کا تبصرہ ملاحظہ کریں ’’اس دوران بھگدڑ مچ گئی، مائیک اور سپیکر سب بکھر گئے اور ہم واپس آگئے میں گھر پہنچا ہی تھا کہ جنرل حامد جاوید کا فون آیا کہ چودھری صاحب جمالی صاحب نے شوکت عزیز کا نام نہیں لیا یہ اچھا نہیں ہوا، اب آپ خود رات 9 بجے سے پہلے ایک پریس کانفرنس کرکے شوکت عزیز کا نام بطور وزیراعظم تجویز کریں تاکہ یہ اعلان رات 9 بجے کے خبر نامے میں نشر ہو جائے‘‘۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانے کیلئے کتنے بے چین تھے۔ پرویز مشرف نے بعدازاں خود فون کرکے چودھری شجاعت حسین سے کہا کہ وہ شوکت عزیز کو ساتھ بٹھا کر ان کے نام کا اعلان کردیں۔ چودھری شجاعت نے مزید تفصیلات بھی لکھی ہیں جنہیں آپ کتاب میں پڑھ سکتے ہیں جو اب آسانی سے دستیاب ہے لیکن اس اعلان کی تان چودھری شجاعت حسین نے بڑے دلچسپ اختتام پر توڑی ہے، آپ بھی لطف اندوز ہوں گے۔
’’پریس کانفرنس کے بعد مبارک سلامت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ سلسلہ کچھ تھما تو شوکت عزیز کہنے لگے کہ میں بنی گالہ میں ایک پارٹی میں شریک ہونے کیلئے جا رہا ہوں جہاں صدر مشرف بھی ہوں گے چنانچہ وہ پریس کانفرنس سے اٹھ کر بنی گالہ چلے گئے جہاں جنرل مشرف ان کے منتظر تھے،،
یہاں تک لکھنے کے بعد چودھری شجاعت حسین نے نئے ضمنی عنوان کے تحت شوکت عزیز پر حملے کی کہانی شروع کردی ہے اور یہ نہیں لکھا کہ بنی گالہ میں یہ تقریب کس کے گھر میں ہو رہی تھی۔ ظاہر ہے انہیں تو بخوبی علم ہوگا لیکن چودھری شجاعت حسین کی اس کتاب میں ایسے مقامات بکثرت آتے ہیں جہاں وہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے اسے اچانک ختم کرکے اگلی بات شروع کردیتے ہیں، غالباً وہ بعض واقعات سے پردہ نہیں اٹھانا چاہتے کیونکہ اس میں ممکن ہے کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہوں یا پھر وہ وضع داری کے تقاضے کے تحت برہنہ گوئی سے پرہیز کرتے ہوں۔ بنی گالہ میں اشرافیہ کے بڑے بڑے گھر ہیں معلوم نہیں یہ کس کا گھر تھا جہاں یہ پارٹی ہورہی تھی۔ عین ممکن ہے چودھری شجاعت حسین خود ہی کسی وقت اس راز سے پردہ اٹھا دیں۔ چودھری شجاعت حسین نے ایک جگہ شوکت عزیز کو پارٹی امور میں مداخلت کرنے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا ہے حالانکہ دونوں کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ چودھری شجاعت حسین سرکاری امور میں مداخلت نہیں کریں گے اور شوکت عزیز پارٹی امور میں دخل اندازی نہیں کریں گے لیکن شوکت عزیز نے اس معاہدے کا پاس نہیں کیا۔
چودھری شجاعت حسین کی یہ کتاب دلچسپ واقعات کا مرقع ہے۔ جن سیاسی اور اہم شخصیات کے بارے میں انہوں نے اپنے تاثرات لکھے ہیں ممکن ہے وہ ان واقعات سے اتفاق نہ کریں اگر ایسا ہے تو انہیں بھی کتابیں لکھنے کا آغاز کردینا چاہئے تاکہ مورخ ان سے اس عہد کی تاریخ نویسی میں مدد لے سکے۔
چودھری شجاعت کے انکشافات