وزیراعظم کا تعمیراتی پیکیج،دیر آئے درست آئے!

وزیراعظم کا تعمیراتی پیکیج،دیر آئے درست آئے!
 وزیراعظم کا تعمیراتی پیکیج،دیر آئے درست آئے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یکم جولائی2016ء کو گزشتہ حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے بیرون ملک کی پراپرٹی کی ترغیب کے لئے پاکستانی رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر بے جا ٹیکسز لگا کر بحران پیدا کیا گیا جو اب تک جاری ہے۔واقفانِ حال کا کہنا گزشتہ حکومت کی طرف سے صرف دبئی پراپرئی میں سرمایہ کاری کے لئے پاکستان میں پراپرٹی کے کاروبار کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔ ایف بی آر، ٹیبلز، ڈی سی ریٹس، اسٹام ڈیوٹی، کیپٹل گین ٹیکس، ایڈوانس ٹیکس، ٹرانسفر فیس میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا،زمینی حقائق کے منافی مسلط کئے گئے ٹیکسز کی وجہ سے پراپرٹی کا کاروبار کرنے والا بڑا طبقہ اسحاق ڈار کی حکومت کے خلاف ہوا اور ساری امیدیں 2018ء کے انتخابات سے باندھ لی اور پھر تبدیلی کے نعرے کو عملی جامہ پہنا کر عمران خان کو ملک کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔تبدیلی نعرے کے ساتھ قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ رئیل اسٹیٹ سیکٹر جس سے ملک بھر میں لاکھوں خاندان وابستہ ہیں،عمران خان کے وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد سو دن کے انقلابی پروگرام میں 50 لاکھ گھروں، ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان ایسا تھا، جس سے ڈیڑھ کروڑ سے زائد چھتوں سے محروم خاندانوں سمیت کروڑوں بے روزگار نوجوانوں نے امیدیں وابستہ کر لیں۔ ان کا کہنا تھا اب نوکریاں ملیں گی، چھت سے محروم خاندان امید سے ہو گئے، اب اُنہیں گھر مل جائے گا افسوس کہ ہر وزیراعظم کے گرد حصار بنانے والی لابی عمران خان کے گرد بھی نظر آئی، جس نے محسوس کیا اگر عمران خان کا کرپشن کے خلاف نعرہ کامیاب ہو گیا اور عمران خان ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئے تو آئندہ دس سال انہیں کوئی ہٹا نہیں سکے گا، دو سال سے مخصوص لابی نے کرپشن کا نعرہ تو خوب لگایا، مگر عملی طور پر نعرہ آگے نہ بڑھ سکا۔


50لاکھ گھروں، ایک کروڑ نوکریوں کی طرف سے آنے ہی نہیں دیا گیا۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر، ڈویپلپرز، بلڈر کے ساتھ ساتھ ہاؤسنگ سوسائٹیز 2016ء سے سراپا احتجاج تھیں انہیں تحریک انصاف کی حکومت سے امیدیں وابستہ تھیں کہ عمران خان کی حکومت پراپرٹی کے کاروبار کی اہمیت کو سمجھے گی، کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کو ملکی خزانہ خالی ملا۔ملکی معیشت دیوالیہ ملی، اس لئے رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے جڑے ہوئے لاکھوں خاندان بڑے یکسو تھے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو صنعت کا درجہ ملے گا اور یکم جولائی2016ء کو اسحاق ڈار کے مسلط کئے گئے ٹیکسز واپس ہوں گے تو وزیراعظم کا 50لاکھ گھروں کا خواب بھی پورا ہو گا اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ40 سے زائد صنعتیں خودبخود چلنا شروع ہو جائیں گی،ملکی معیشت کا پہیہ پٹڑی پر چڑھ جائے گا۔افسوس کہ دو سال انتظار میں گزر گئے، فیڈریشن آف ریلٹرز ملک بھر کی ڈی ایچ اے انتظامیہ، ڈی ایچ اے اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشنز سراپا احتجاج ہیں،18ماہ بعد تحریک انصاف کی حکومت کو بالعموم اور وزیراعظم عمران خان کو بالخصوص احساس ہو گیا، ملکی معیشت کی مضبوطی کے لئے صرف آئی ایم ایف کے قرضے ضروری نہیں ہیں،انڈسٹریز، زراعت، تعمیراتی کاموں کا چلنا بھی ضروری ہے۔2019ء کی آزمائشوں سے وزیراعظم پوری طرح سرخرو نہیں ہوئے تھے کہ 2020ء میں کورونا کی عالمی وبا نے گھیر لیا، خوش آئند بات یہ ہے کہ کورونا کے خلاف بھی عمران خان نے فہم فراست سے کام لیا اور غریب افراد کی مجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی سے کام کیا کہ کرفیو کی جگہ بھی لاک ڈاؤن سے کام چلایا، لاک ڈاؤن کے دوران ہی دھماکہ خیز تعمیراتی پیکیج کا اعلان وزیراعظم کے تعمیراتی پیکیج کے اعلان سے تعمیراتی شعبہ، رئیل اسٹیٹ سیکٹر، بلڈرز، ڈویلپرز کے گھروں میں خوشی کی لہڑ دوڑ گئی۔ ایک ہی نعرہ چاروں اطراف سے گونجنے لگا دیر آئے درست آئے۔ اس بات میں بھی کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ صرف تعمیراتی شعبہ ہی ایسا شعبہ ہے جس سے دو درجن سے زائد انڈسٹریز جڑی ہوئی ہیں،زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے، تعمیراتی شعبہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ایک شعبہ ہے۔ اگر رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو صنعت کا درجہ دیا جاتا تو زیادہ استفادہ کیا جا سکتا ہے۔


اگر مَیں کہوں تعمیراتی شعبہ ہی کافی ہے تو غلط نہ ہو گا، موجودہ حالات میں جب بے جا ٹیکسز کی وجہ سے پراپرٹی کے دفاتر دھڑا دھڑ کام نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو رہے تھے، کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھی بند ہیں۔ وزیراعظم کے14اپریل سے کام شروع ہونے سے ہی جشن کا سماں ہے، تعمیراتی پیکیج میں بڑے بڑے اعلانات میں اس سال گھر بنانے والے کو ایمنسٹی دینے سمیت کیپٹل ایڈوانس ٹیکس ود ہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ شامل ہے،اس کے ساتھ ساتھ تعمیراتی شعبہ کے میٹریل پر ٹیکسز کی معافی شامل ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹی اور گھر کے نقشہ کی منظوری کے لئے45دن کی ڈیڈ لائن بڑا اقدام ہے۔ تعمیراتی شعبہ کو خود مختار بورڈ بنانا بھی معمولی بات نہیں ہے، پہلے مکان کی فروخت پر جنرل سیلز ٹیکس کا خاتمہ شامل ہے۔


صوبوں کو فوری طور پر سی وی ٹی اور اسٹام ڈیویٹی دو فیصد کرنے کا حکم دیا گیا ہے، بہت سے نکات مزید شامل ہیں، لمحہ فکریہ یہ ہے کہ تعمیراتی پیکیج کے اعلان کو ایک ہفتہ سے زیادہ ہونے کو ہے، بھی تک ایس او پی جاری نہیں کئے گئے، کوئی نوٹیفکیشن سامنے نہیں، صوبوں کی طرف سے سی وی ٹی اور اسٹام ڈیوٹی دو فیصد کم کرنے کے نوٹیفکیشن کا انتظار ہے۔فیڈریشن آف ریلٹرز تعمیراتی پیکیج پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ ڈویلرز اور بلڈرز ایسوسی ایشنز کے ساتھ ساتھ ڈی ایچ اے اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشنز لاہور، کراچی، پنڈی نے پیکیج میں نئے مطالبات شامل کرنے کا کہا ہے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو صنعت کا درجہ ضروری قرار دیا جا رہا ہے، ایف بی آر کے قانون کی شق111میں تبدیلی ضروری قرار دی جا رہی ہے اس کے بغیر پلاٹس کی خریدو فروخت ممکن نہیں ہے۔


مکان کے ساتھ پلاٹس کی خریداری پر ایمنٹسی ضروری ہے، کہا جا رہا ہے کہ یکم جولائی2016ء کو مسلط کئے گئے ٹیکسز واپس لئے بغیر رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور تعمیراتی پیکیج کے سارے ثمرات سمیٹنا ممکن نہیں ہے۔ کیپٹل گین ٹیکس کی شراط مکان کے ساتھ پلاٹس پر آٹھ سال سے کم کر کے دو یا تین سال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔25دن کے لاک ڈاؤن نے غریب افراد کے ساتھ سفید پوش خاندانوں کا کچومر نکال دیا ہے اِس لئے14 اپریل سے کاروبار کھولنے اور تعمیراتی پیکیج کا وفاق اور صوبوں کو نوٹیفکیشن کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک بات پر سب متفق ہیں دیر آئے درست آئے۔

مزید :

رائے -کالم -