پراپیگنڈا 

Apr 10, 2022 | 03:39 PM

سردار پرویز محمود

 ٰ  یہ ایک نارویجن اخبار ہے جو آج میں نے یہاں اوسلو میں ایک نارویسن سے خریدا ہے۔ نارویسن یہاں ناروے میں ایک دکان یا کھوکھے کو کہتے ہیں۔جس تصویر  پر میں ذرا ٹک سا گیا تین نوجوانوں کی ہے۔ دائیں اور بائیں باوردی نوجوان یوکرین میں روسی فوج سے لڑنے گیے۔ واپس انکی لاشیں آئی۔ناروے ایک پیس نیشن ہے۔ جنگ کے لیے والنٹیر ہوجانا اور  لاشوں کی صورت میں واپس آنا بہت ریموٹ اور  ٹف آئیڈیا ہے۔
 پراپیگنڈا کے کیا معانی ہیں؟ انگلش ترجمہ دیکھیں تو اس کا مطلب ملتا ہے کسی مقصد کے لیے نشر و اشاعت۔ کسی مقصد کے لیے نشرواشاعت کو  پراپیگنڈا کہتے ہیں؟ اس سے پہلے ہم پراپیگنڈا کا مطلب جھوٹ سمجھتے رہے ہیں۔ کسی مقصد کے لیے نشرواشاعت اور جھوٹ میں کیا فرق ہے؟ ہم  زیادہ تر وسٹرن  میڈیا  فالو کرتے ہیں۔ روس نے یوکرین جنگ کے شروع ہوتے ہی وسٹرن چینلز کو کہا کہ آپ وہ خبر دیں گے جو ہم آپ کو دیں گے۔ اب کی بار  وسٹرن میڈیا کو من گھڑت پراپیگنڈا نہیں کرنے دیں گے۔ مجھے بڑا تجسس پیدا  ہوا کہ دیکھیں اب وسٹرن میڈیا کیا کرے گی؟ جنگ کی خبریں بگاڑ کہ دینے سے تو رہے۔
نیویارک ٹائیمز نے خبر چھاپی کہ امریکی انٹلی جینس کے مطابق روس دو تین دن میں یوکرین کے دارلحکومت پر قبضہ کرلے گا۔ اگلے دن  نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ واو۔ امریکی انٹلی جینس کا  اندازہ  درست نہیں نکلا۔ روس کو دارلحکومت پر قبضے پر کافی دن لگ سکتے ہیں۔ یعنی  روسی فوجی طاقت ہمارے اندازے سے کافی کمزور ہے۔پھر وسٹرن میڈیا بتاتا رہا کہ یوکرین کے عوام نے لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور  روسی فوج کا  مقابلہ کررہے ہیں۔ اور ساتھ میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دنوں کی بات ہے یوکرین کا  دارلحکومت روس کے قبضے میں آجاے گا۔ 

یوکرین کی دو  لاکھ پندرہ  ہزار فوج ہے جسے امریکہ نے ٹرینڈ کیا اور  یقین دلایا کہ تم سپرپاور کے خلاف کھڑے ہوسکتے ہو۔   یہ اتنے سارے وسٹرن لیڈرز یکے بعد دیگرے ماسکو میں جاکر پوتن کی لمبی میز پر بیٹھ کر ڈپلومیسی کرتے رہے۔ جب اتنے سارے لیڈرز یکے بعد دیگرے ماسکو جار تھے اور  پوتن کی لمبی میز پر  بیٹھ کر تصویریں کھنچوارہے تھے تو  یوکرین والے کتنی غلط فہمی کا شکار ہوگیے۔ یہ امریکہ اور  نیٹو کے رہنما گویا  یوکرین کے ساتھ ہیں۔ پھر  یوکرین ڈٹ گیا اور ملک پر چڑھائی کروادی۔ پوری  وسٹرن دنیا شور مچاے جا رہی ہے کہ یوکرین والے لڑیں گے۔ اپنے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجوائیں گے۔ وہ  ایسا ہی کروا  رہے ہیں۔
ان کو  یوکرین کے عوام سے بے پناہ محبت ہے۔ یا  انکو  یوکرین کا ملک کسی اور وجہ سے بہت عزیز ہے۔ یا وہ  روس کے خلاف  مزاحمت کو ہوا  دینا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک عام آدمی یہ ساری کہانیاں اور تفصیل کہا ں سوچتا ہے؟ یہ سوچنے کے لیے شاید وہ  وقت ہی نہیں نکالتا یا اس کے پاس شب  و  روز کی مصروفیات کے ساتھ وقت نکالنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ وہ بمشکل شام نو بجے کی خبریں دیکھتا ہے۔ ان خبروں کو وہ  جاننے پر  اکتفا کرتا ہے۔ اور روس سے نفرت کرتا ہے۔ ان خبروں کے درست ہونے یا نیم جھوٹ ہونے یا مکمل ہونے پر سوچنا موصوف کی عادت میں نہ شامل ہے اور  نہ اس کے پاس  خاطر خواہ وقت ہے۔ میڈیا  پراپیگنڈا  ایک سائنس ہے۔ چنانچہ ذمہ دار شہری نے جو بڑی سکرین پر دیکھا  اور جس اینگل سے سنا اس پر  یقین کیا۔ چنانچہ موصوف کی ایک راے بن چکی ہے اور اس کی راے میں روس ایک جارح اور ظالم اور  جابر ملک ہے ۔ اور  اس کے خلاف سوچنا  اور اسکی ہار  اور  ہزیمت کی خواہش اس کا  بنیادی نظریہ بن چکی ہے۔ سارے وسٹرن عوام روس کے اتنے خلاف؟ 
  عوام کی کیا پرسنٹیج ہے جن کے ذہن میں اسطرح کے سوالات بھی اٹھتے ہیں؟ یہ کس کا چینل ہے؟ کسی ارب پتی کا چینل ہوگا۔ ارب پتی نے اس چینل پر اتنی رقم انوسٹ کی ہے۔ اس چینل کے اشتہاروں سے کافی رقم کمائی جاتی ہے اور پھر اس امیر آدمی کے رال ٹپکتے ہوں گے کہ چینل سے ذرا  زیادہ منافع ہو۔ چنانچہ وہ  میڈیا  پالیسی اپنائی جاے جو منافع بخش ہو۔ نہ کہ وہ میڈیا پالیسی اپنائی  جاے جو چینل کے بزنس کو کسی بھی طرح منفی طور پر متاثر کرے۔ مارڈن گلوبل ویلج میں ذرائع ابلاغ کو حدود  اور  قیود میں رکھنا لجسلیشن کے لیے آے روز ایک چیلنج بنا رہتا ہے۔سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ کیوں نت نئے قوانین بن رہے ہیں تاکہ پراپیگنڈا سائنس کو قوانین اور  دستور کی لگام دی جاے۔ قدیم دور کے لیے بھی یہ کہا جاتا تھا کہ ہاری ہوئی جنگ پراپیگنڈے سے جیتی جاتی تھی۔ اور آج جب ذرائع  ابلاغ نے اتنی ترقی کرلی ہے۔دنیا ایک گاوں بن گئی ہے تو پراپیگنڈا سائنس کا رول جنگ اور  محاذ  آرائی  میں فیصلہ کن ہونا سمجھ میں آنا چاہیے۔
اکثر ہم مطمئین نظر آتے ہیں کہ ہم پر شاید پراپیگنڈے کا اثر نہیں ہورہا۔ لیکن اگر باقی لوگوں پر ہو رہا ہے۔ تو جلد آپکی آواز  نقارخانے میں  طوطے کی آواز بن جاتی ہے۔ 
ہمارے ایک دیرینہ دوست  جب بھی ہم سے ملے احتیاط سے سمجھاتے رہے کہ ویسٹ کے خلاف بات  نہ کرو۔ آج جب میں موصوف کی گفتگو اور  جملوں پر غور کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے وہ  مجھے یہ پیغام دے رہے تھے کہ ویسٹ کے خلاف مت سوچو۔ اپنی سوچ پر پیرے بٹھاو ۔ مجھے یقین ہے  ویسٹ کے بہت محبت کرنے والے شاید وہ بھی نہیں ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت گرنے سے سبق سیکھنا دانشمندی ہے۔ آئیے  پورے شد و مد سے روس کی جارحیت کی مذمت کریں۔ راشن پانی کی ترسیل جاری چاہیے۔ راشن پانی کے بغیر آواز  مدھم پڑنے لگتی ہے۔  پھر آواز  دم  توڑ  دیتی ہے۔
اللہ ہمارا  حامی  اور  ناصر  ہو۔

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

  ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.  

مزیدخبریں