آو مل بیٹھیں
ضد کے نتیجے میں تصادم ہوتا ہے اور تصادم کے نتیجے میں نقصان۔ نقصان کا تخمینہ لگانے کے لئے کمیٹیاں بنتی ہیں اور اکثر کمیٹیوں کے اراکین اپنی اپنی کمیٹی ڈالنے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ نفع نقصان کاتعین ہونے سے پہلے ہی شور مچ جاتا ہے اور یوں طوفان بدتمیزی کی آگ کا مچ مچایا جاتا ہے پھر تو ہر کسی کو تگنی کا ناچ نچایا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں گھنگھرو ایک ایک کر کے ٹوٹ جاتے ہیں اور تماشائیوں کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔ پست حوصلہ قوموں میں بدحواسی، مایوسی اور غیر یقینی صورتحال جنم لیتی ہے۔ زندگی بڑی ہی مختصر ہے اور ہمارے ہاں دوسرے جنم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ہم نے ایک ہی اننگ میں سرخرو ہونا ہے اور سرخی پاوڈر کا کوئی رول نہیں ہے۔ محتاط پلے ہی ہماری کامیابی کی شرط اول ہے۔ اس کے بعد تو پھر عدالت لگے گی اور عدالت کے ہاں اختلاف رائے کا آپشن موجود نہیں ہے۔ مزے کی بات ہے یہاں اپیل کاحق بھی نہیں ہے۔ شہادت کا معیار بہت اعلیٰ ہے ڈنڈی مارنے والے بآسانی پکڑے جاتے ہیں اور ڈنڈے والوں کے آنے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ ان کے آنے پر تو سب سکتے میں آ جائیں گے اور ہوش میں آنے پر اچھا خاصا وقت لگے گا۔ وقت آنے پر شور شرابا کرنے والے تتر بتر ہوجائیں گے۔ تتر اور بٹیر کوئی اور کھائے گا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم شاید کھا پی چکے ہیں اور ہمارا نازک وقت شروع ہونے والا ہے۔ ہوش کی انگڑائی لے کر جوش کے جن کو وقت کی بوتل میں بند کیا جا سکتا ہے تاکہ بات آگے بڑھے اور ہم سب وقت کے میدان میں سرخرو ہو جائیں بصورت دیگر ”اوہلے“ اترنے کا وقت ہے اور ہم سب حمام میں ننگے ہیں۔ ستر ڈھانپنے سے ہم جگ ہنسائی سے بچ جائیں گے۔ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آنسو بہانے کی بجائے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ورنہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ بس اب شور شرابہ ختم۔ کچھ نہ کچھ کرنے کاوقت شروع ہوا چاہتا ہے۔
وقت کی نزاکت کا احساس کرنے، بات غور سے سننے اور مائنڈ اپلائی کرنے سے ہی آگے بڑھنے کے لئے دروازے کھلتے ہیں آگے بڑھنے والے زندہ قوم ہونیکا اعزاز اپنی چھاتی پر سجاتے ہیں اور چھاتی تان کر دشمنوں کے ہر وار کا جواب دیتے ہیں نہیں تو ان کو اس کار جہاں دراز میں جواب دینا پڑتا ہے۔ پھر جوابدہی اور پھر جوابدہی۔ سوال چنا جواب باجرہ۔ باجرے کی راکھی کرنے والوں کو کسی اور کام پر لگا دیا گیا ہے۔ شاید ہم سب ایک دوسرے کا کام کر رہے ہیں اور ناکامی کی صورت میں الزام تراشی۔ تراش خراش وقت پر کرلی جائے تو الزام تراشی کی نوبت ہی نہیں آتی ہے۔ وقت پر مناسب فیصلے کرنا، پھونک پھونک کر قدم رکھنا اور پھر قدم سے قدم ملانا ایک خواب ہے۔اس کی تعبیر کب سامنے آئے گی یہ بھی وقت ہی بتائے گا۔ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور ہم سب کی منزل اقتدار ہے جس کے ہم سالہا سال سے مزے لوٹ رہے ہیں۔ابھی مزہ چکھنا باقی ہے۔ ہمارا حال شور شرابہ اور مستقبل خدا جانے۔ بقول شاعر خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ شاید حکمران بدلنے سے الزامات کی نوعیت بدل جاتی ہے اور کچھ لمحات قوم سکھ کا سانس لیتی ہے۔یوں حکمران آتے جاتے رہتے ہیں اور کچھ نہ کرسکنے کا الزام دوسروں کے سر۔ الزام تراشیوں کا جمعہ بازار بلکہ لنڈا بازار۔ یہاں ہر چیز کی قیمت لگتی ہے اور ہر کوئی بکنے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ اگلے جہان کی تیاری کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ مذہبی قیادت اپنے خطبوں میں اس کا ذکر ضرور کرتی ہے لیکن وہ لوگ بھی اپنے اوپر اس کو لاگو کم ہی کرتے ہیں
کیا خوبصورت ہماری دھرتی ہے جہاں زمینیں سونا اگلتی ہیں، پہاڑ آسمان سے باتیں کرتے ہیں اور ان کی تہوں میں قدرتی وسائل کے بے پناہ ذخیرے موجود ہیں۔ دریاؤں کی ان گنت تعداد ہے جو ہمارے آبی وسائل میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہاں کی افرادی قوت بھی صلاحیتوں سے بھر پور ہے۔ کیا کیا نہیں ہمارے پاس۔ ہم اللہ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائیں گے۔ شاید ہمارے ہاں نیتوں کا دقیق اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے وسائل مسائل میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ اجناس کی کثرت کے باوجود ہمیں اپنی ضروریات کے لئے ہر چیز باہر سے درآمد کرنا پڑتی ہے۔ ہم ایک دوسرے سے مکمل طور پر بدظن ہو چکے ہیں اور ذاتی منفعت کی بدولت ہماری سوچ مکمل طور پر مغلظ ہو چکی ہے۔ ویسے ہم گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں اور قرضوں میں ہمارا لوں لوں ڈوب چکا ہے۔ اس ساری صورتحال میں جمہور کی آواز سننے کے لئے ہم بیتاب ہیں۔ آواز کیسی ہوگی اس کا بھی ہمیں پورا یقین نہیں ہے۔ لہٰذا آواز کو دبانے کے ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں اور جمہور کے راستے میں کنڈے کھلارے بھی جا سکتے ہیں تاکہ ان کی چیخیں نکلوائی جا سکیں اور آواز کے لب لباب کی اپنی مرضی سے تشریح کی جا سکے۔ باہر والے بھی اس ساری صورتحال کا بنظر غائر مطالعہ کر رہے ہیں۔ہو سکتا ہے حجاز مقدس سے ٹھنڈی ہوا آجائے اور یقینا آئے گی آخر جمود کو ایک نہ ایک دن تو ٹوٹنا ہے اور انشاء اللہ ٹوٹ کر ہی رہے گا اور ہم سب کا بھرم بھی قائم رہے گا اور دھرم بھی قائم رہے گا چونکہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اب یہ ضروری ہے کہ کہانی کے سارے کردار باکردار ہوجائیں اور وہ اپنے قول و فعل کے لحاظ سے احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔
سوچ میں وسعت پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دل اور دماغ کے دروازے کھولنے سے ہی سیاسی گھٹن کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ شاہ خرچیاں ختم کر کے اور پبلک اکاؤنٹ میں اپنا حصہ ڈال کر غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ جملہ ادارے اپنی اپنی حدود و قیود کا تعین کریں اور پھر اپنا کردار ادا کرنے میں نیک نیتی کا عملی مظاہرہ کریں۔ سیاسی قیادت طعن و تشنیع کی بجائے اپنی باری کا انتظار کرے اور ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دینے سے تائب ہو جائے۔انصاف کے دروازے سب کے لئے کھول دیئے جائیں اور سب کی بات سن کر مبنی بر انصاف ایسے فیصلے کئے جائیں جن کا کسی کو بول کر دفاع کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ میڈیا محض بریکنگ نیوز کے لئے تھرتھلی مچا دینے والی خبروں سے اپنی دھرتی ماتا کے استحکام کے لئے اجتناب کرے۔ عوام ماضی کو پیش نظر رکھیں اور کھوکھلے نعروں سے جذباتی ہو کر آوے ای آوے کے نعروں سے پرہیز کریں۔ مرض کی شدت کی نوعیت کو مدنظر رکھ کر حکماء پرہیز تجویز کرتے ہیں۔ ہر شخص انفرادی طور پر محنت سے ملکی تعمیر وترقی میں اپنا بھرپورکردار ادا کرے۔ قانون سازی اور منصوبہ سازی میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ ملک کو نظم وضبط سے چلانے میں سارے ادارے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ خود غرصی حرص اور لالچ کے بتوں کو حب الوطنی کی لاٹھی سے پاش پاش کرنا ہو گا۔یہ وہ اقدامات ہیں جن کے کرنے سے موجودہ سیاسی و معاشی بحران کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ آئیں مل کر بیٹھیں اور فہم و فراست کا مظاہرہ کریں۔