بڑھتی ہوئی ضروریات کے لئے۔۔۔۔۔۔ توانائی کے شعبے میں مزید اقدامات کی ضرورت!
صنعتی معیشت اور پیداوار سب سے زیادہ انرجی بحران کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے ۔ ہماری جی ڈی پی نمومیں 2 فیصد کمی انرجی بحران کی وجہ سے ہے۔ انرجی بحران پر قابو پانے کیلئے ہم حکومتی کوشش کو سراہتے ہیں لیکن صورتحال کی سنگینی اس بات کی متقاضی ہے کہ انرجی کے بحران کو ترجیح بنیادوں پر حل کیا جائے۔ بجلی ہائیڈل ، کول، بائیو گیس اور دوسرے ذرائع سے پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر سولرانرجی پراجیکٹ سب سے تیزی کے ساتھ انسٹال کرکے بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے خوش قسمتی سے پاکستان کے بیشتر علاقوں میں سورج کی روشنی 14 12-گھنٹے موجود ہے جس کو انسٹال کرنے کی سطح بھی سولر ٹیکنالوجی کیلئے بہت موزوں ہے جس کو بڑی آسانی کے ساتھ بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرکے ہم دور دراز کے علاقوں میں بجلی مہیا کر سکتے ہیں جس سے غربت کو کم کرنے میں مدد ملے گی بجلی کی پیداوار کیلئے سولر ٹیکنالوجی کا استعمال دنیا میں بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جو کہ تقریباً ایک سو ممالک میں رائج ہے اگرچہ یورپین ممالک کو اس میں فوقیت حاصل ہے مگر یہ ٹیکنالوجی شمالی افریقہ ،مشرق وسطا،شمالی امریکہ اورساوتھ ایشیاء میں بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہے حکومت پاکستان اور پنجاب حکومت کو پاکستان میں پہلی مرتبہ اور دنیا کا سب سے بڑا950میگا واٹ کا قائدا عظم سولر پاورپارک منصوبہ کا قیام اس قسم کے اقدامات بہت پہلے ہونے چاہیئے تھے اس وقت دنیا میں جرمنی37 فیصد ، چائنا 25فیصد ،سپین 12.7 فیصد ، جاپان7فیصد اور انڈیا2فیصد بجلی سولر سے پیدا کر رہا ہے ملک میں توانائی بحران کے خاتمے کے لئے شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔چینی سرمایہ کار پاکستان میں بجلی گھروں کے قیام کیلئے سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار ہیں،لٰہذا حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کی راہ ہموار کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہا ہے صنعتوں کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مثتثنیٰ قرار دینا ایک مستحسن فیصلہ ہے مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے توانائی کی پیداوار کے تمام منصوبے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ جوں جوں صنعت سازی کو وسعت ملے گی توں توں بجلی کی ضرورت بھی بڑھتی چلی جائے گی جس کے لیے ابھی سے کام کرنا ہوگا صنعتوں کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مثتثنیٰ قرار دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت صنعتی پیداوار میں اضافہ چاہتی ہے مستقبل کے لیے ہمیں آج ہی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ضروری ہے کہ ہائیڈل منصوبے جلد از جلد مکمل کیے جائیں اور بڑے ڈیموں کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی جائے ماضی قریب میں توانائی بحران نے بالخصوص مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بہت نقصان پہنچایا، صنعتی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ایکسپورٹ سے وابستہ صنعتیں اپنے برآمدی اہداف پورے نہیں کرپائیں جبکہ صنعتی یونٹس بند اور بے روزگاری بڑھی صنعتی یونٹس کو لوڈشیڈنگ سے مثتثنیٰ قرار دینے کے بہت دور رس نتائج برآمد ہونگے اور صنعتی پیداوا رمیں کمی سمیت تمام مسائل کے حل میں مدد ملے گی توانائی کی پیداوار بڑھانے کے لیے حکومت تمام ذرائع استعمال کرے توانائی کا شعبہ ملکی ترقی کے لئے انتہائی اہم ہے جس میں اصلاحات کی رفتار سست ہے جبکہ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی نجکاری اور چوری میں کمی پر بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ہے جس کا اثر ملکی ترقی پر پڑ رہا ہے گردشی قرضہ 615 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جو معیشت کے لئے بڑا خطرہ ہے اس لئے اس سے ترجیحی بنیادوں پر نمٹا جائے۔ آبی و سائل کے ماہرین نے کہا ہے کہ چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر سالانہ اربوں ڈالر کے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے ، جن کی تعمیر سے نہ صرف سیلاب کے نقصان کو کم سے کم کرنے بلکہ پانی کی قلت کے مسئلہ پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔آبی و سائل کے ماہرین نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سیلاب کی شکل میں ہر سال کم وبیش 30ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر برد ہو جاتا ہے ۔ پانی کی یہ تعداد اربوں ڈالر مالیت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے درست استعمال اور اسے ضائع ہونے سے بچا کر آب پاشی ، زرعی ترقی ، توانائی کے حصول اور عام استعمال کی صورت میں ہر سال اربوں ڈالر معاشی نمو حاصل کی جا سکتی ہے، جبکہ سیلاب سے ہونے والے ہر سال کے اربوں ڈالر کے نقصانات سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ معیشت کے اکثر اشارئیے بہتر سمت کا پتہ دے رہے ہیں تاہم سیاسی درجہ حرارت بڑھا ہوا ہے جو استحکام کی راہ میں رکاوٹ ہے حکومت نے تیل کی قیمتیں کم کر کے اچھا قدم اٹھایا ہے جس سے کاروباری لاگت اور افراط زر کم ہو گا جبکہ عوام کو بھی ریلیف ملے گا۔ دوسری طرف نجی شعبہ کو خام مال اور سامان کی نقل و حمل میں بچت ہو گی جس سے کاروبار کے اخراجات کم ہونگے۔ مرکزی بینک نے شرح سود کو برقراررکھ کر اچھاقدم اٹھایاہے تاکہ نجی شعبہ کو سستے قرضے مل سکیں جو اقتصادی ترقی کے لئے انتہائی ضروری ہیں زرمبادلہ، افراط زر،روپے کی قدر اور ترسیلات کی صورت حال اطمینان بخش ہے جس سے سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود شرح نمو پانچ فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ افراط زر خطرے سے بھی نمٹنے کی ضرورت ہے اور اس میں بہتری اسی صورت میں آسکتی ہے کہ جب دوسرے ممالک پاکستان میں سرمایا کاری کریں جیساکہ ترکی کے سرمایاکاروں کا ایک دس رکنی وفد جو آج پانچ روزہ دورے پر ہے جوپاک چین اقتصادی رہداری میں سرمایاکاری کاخواہش مند ہے جو مختلف شعبہ جات جیسا کہ انرجی ،ٹیکسٹائل ،ایگری کلچر، لائیو اسٹاک ،مشینری ،پرنٹنگ ، الیکٹرونکس اور پی وی سی ونڈوز ،دروازے ،ہوم اپلائنسس جیسے شعبہ جات میں سرمایاکاری کرنے میں دلچسپی رکھتاہے جبکہ خیبر پختونخوا آئل گیس کمپنی لمیٹڈ (کے پی کے او جی سی ایل) صوبے میں تیل و گیس کی تلاش کی سرگرمیوں میں تیزی لائے گی جس سے نہ صرف توانائی کی بڑھتی ہوئی ملکی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی،بلکہ علاقوں میں عوام کی ترقی و خوشحالی کا ایک نیا باب کھلے گا۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے 2013ء میں توانائی کی بڑھتی ہوئی صوبائی اور ملکی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دینے کے لئے خیبرپختونخوا تیل و گیس کمپنی لمیٹڈ قائم کی تھی جس نے دو سال کی قلیل مدت میں نہ صرف ہائیڈرو کاربن کی تلاش کی سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے بلکہ ملکی اور غیر ملکی ایکسپلوریشن اور پروڈکشن کمپنیوں کو پرکشش مراعات اور سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کی فراہمی سے صوبے میں ان کے لئے نئی جہت پیدا کر دی ہے جس سے عوام کی ترقی و خوشحالی کی نئی راہیں کھل رہی ہیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ خیبر او جی سی ایل نے ملکی اور غیر ملکی ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں کے ساتھ مل کر صوبہ خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں تیل و گیس کی تلاش میں جوائنٹ وینچر کیا ہے تاکہ مشترکہ کوششوں سے دریافت کی کامیابیوں میں اضافہ ہو اور پٹرولیم مصنوعات کی دوسرے علاقوں میں ترسیل کے جامع انتظامات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا صوبہ میں ہائیڈرو کاربن کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور کئی علاقوں میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں 49 ہزار بیرل تیل اور 380 ملین (ایم ایم سی ایف ڈی) گیس یومیہ پیدا کر رہی ہے۔ خیبر پختونخوا او جی سی ایل نے تیل و گیس کی تلاش میں اضافے کے لئے ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ انہیں ڈیٹا کی فراہمی اور سیکورٹی کے فول پروف انتظامات میں بھرپور مدد کے لئے بروقت تیار ہیں تاکہ کسی بھی مشکل کا فوری ازالہ ہو سکے اور سرمایہ کاروں کو صوبائی سطح پر بہترین سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان اقدامات سے دریافت کی کامیابیوں کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ خیبر آئل و گیس کمپنی لمیٹڈ عنقریب آئل و گیس کانفرنس منعقد کرے گی جس میں تمام ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کو مدعو کیا جائے گا تاکہ صوبے میں ہائیڈرو کاربن کی تیل کی سرگرمیوں میں اضافے کے لئے جامع حکمت عملی تشکیل دی جا سکے اور کمپنیاں حکومتی پرکشش مراعات سے فائدہ اٹھا سکیں ایل این جی کی درآمد کے لیے قطر سے باضابطہ معاہدہ رواں ماہ ستمبر تک طے کرلیا جائے گا۔ قطر کے ساتھ ایل این جی کی درآمد کے معاہدے کے لیے تمام امور پر اتفاق رائے ہوچکا ہے اور تمام دستاویزات بھی تیار کرلی گئی ہیں تاہم ان معاہدوں پر دستخط نہیں کیے گئے۔ معاہدے کے لیے حکومت پاکستان کو قطر حکومت کو ساورن گارنٹی فراہم کرنا ہوگی جس کے لیے دونوں حکومتوں میں گیس سپلائی ایگری منٹ کے علاوہ بھی الگ معاہدہ کرناہوگا۔ پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکالنے میں درآمدی ایل این جی کا کردار اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی تنصیب پر ماحولیاتی خدشات اورکوئلے کی ترسیل کی مشکلات کے پیش نظر ایل این جی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو ترجیح دی جارہی ہے تاہم ملکی سطح پر ایل این جی کی درآمد میں شریک قومی اداروں کی جانب سے ایل این جی کی ترسیل پر ریونیو کمانے کی پالیسی نے ایل این جی کا ذریعہ بھی مہنگا بنادیا ہے پورٹ قاسم اتھارٹی ایل این جی کے جہاز پر 6سے 7 لاکھ ڈالر پورٹ چارجز وصول کررہی ہے جس سے ایل این جی کی درآمدی لاگت میں نمایاں اضافے کا سامنا ہے۔ اسی طرح سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیاں بھی گیس پائپ لائن کی رائلٹی اور سروس چارجز کی مد میں بھاری ریونیو کمانا چاہتی ہیں۔ ایل این جی کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والی پائپ لائن اپنی طبعی عمر پوری کرچکی ہے جس کی اپ گریڈیشن اور ری ویلیو ایشن کے ذریعے اس کی قیمت کا ازسر نوع تعین کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ذرائع نے بتایا کہ پائپ لائن کی نئی قیمت کے تعین کے بعد سروس چارجز اور ترسیل کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔ ادھر پورٹ قاسم اتھارٹی نے شپنگ ایجنٹ کو مطلع کیا ہے کہ بڑے بحری جہاز( کیو فلیکس ٹینکرز) کی آمد کی صورت میں اضافی چارجز(پینلٹی) وصول کی جائیگی پورٹ قاسم اتھارٹی نے دو ماہ قبل پورٹ کو کیو فلیکس جہازوں کی آمد کے لیے کلیئر قرار دیتے ہوئے امپورٹرز اور سپلائرز کو گرین سگنل دے دیا ہے تاہم ٹینکرز پر پینلٹی کے نفاذ کی صورت میں لاگت بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ درآمدی ایل این جی کی انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمت کم ہونے کے بعد پاکستان کے لیے فرنس آئل کے مقابلے میں ایل این جی کے ذریعے بجلی پیدا کرکے زرمبادلہ بچانے کا بہترین موقع میسر ہے تاہم ملکی سطح پر ٹیکسوں اور حکومتی اداروں کے بھاری سروس چارجز کی وجہ سے گیس ایل این جی کی کاسٹ بڑھ رہی ہے۔ ایل این جی کی قیمت میں ملکی محصولات، چارجز کی وجہ سے گیس کی اصل قیمت کے مقابلے میں 50فیصد اضافہ ہورہا ہے مقامی ٹیکسز اور چارجز میں کمی لاکر انڈسٹری کو کم قیمت پر ایل این جی فراہم کی جا سکتی ہے۔