پاک ریلوے ترقی کی راہ پر گامزن

پاک ریلوے ترقی کی راہ پر گامزن
 پاک ریلوے ترقی کی راہ پر گامزن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ریلوے ہیڈ کوارٹرز لاہور میں ڈائریکٹوریٹ آف لیگل افیئرز کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ سوا دو سال قبل انہوں نے جب ریلوے کی ذمہ داری سنبھالی تو ریلوے ہیڈ کوارٹر بدحال تھا، جبکہ لیگل کے شعبے میں قانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی، لیکن اس وقت پاکستان ریلوے آہستہ آہستہ ترقی کی جانب گامزن ہو رہا ہے۔ ریلوے ایک مدت سے زوال کا شکار چلا آ رہا ہے اور دو سال قبل ریلوے کی جو تصویر ہمارے سامنے تھی، اس میں ناامیدی اور مایوسی کے سواکچھ نہیں تھا۔ کوئی انتظامی صلاحیت کا حامل پر جوش اور باہمت شخص ہی ریلوے کو چلا سکتا ہے اوریہ ذمہ داری خواجہ سعد رفیق کے سپرد کی گئی، جنہوں نے قوم کو مایوس نہیں کیا۔ قبضہ گروپوں سے ریلوے نے 10ارب مالیت کی تین ہزار ایکڑ زمین واگزار کروائی ۔ ریلوے کے اخراجات میں کمی لا کر اسے مستحکم کیا۔ 2013ء سے 2014ء تک 2 ارب روپے زائد آمدنی ہوئی۔ پاکستان ریلوے بحالی کی پٹڑی پر چڑھ چکا ہے اور ریلوے کی مالی حالت بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے۔


اس امر کی ضرورت مدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ پاکستان ریلوے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے مطلوبہ اقدامات کئے جائیں۔ یہ ایک بڑا سچ ہے کہ پاکستان ریلوے واحد ایسا نوآبادیاتی محکمہ تھا، جو قیام پاکستان کے وقت ارباب حکومت کو ترقی یافتہ شکل میں ملا۔ آزادی کے بعد ریلوے کو ترقی دینے کے حوالے سے مطلوبہ اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے ریلوے پیہم خسارے کا شکار رہا۔ ریلوے کی کیرج فیکٹریاں ، ورکشاپس اور دیگر پرزہ جات تیار کرنے والے اداروں کی کارکردگی نو آبادیاتی دور میں اس حد تک لائق رشک اور مثالی رہی کہ عام شہر ی بھی اس کی تعریف میں رطب اللسان رہا۔ ان فیکٹریوں ، ورکشاپس اور اداروں میں کام کرنے والے ہنر مندوں، کاریگروں اور مزدوروں کی فعالیت ، فرض شناسی اور تندہی کی مثالیں دی جاتیں۔ آزادی کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے ریلوے ملازمین کو ’’کام نہ کرنے کی آزادی‘‘ بھی حاصل ہو چکی ہے۔ جتناترقی یافتہ انفراسٹرکچر ریلوے کے پاس تھا، اگر ریلوے کے ارباب ذمہ داری اور دیانت داری سے اسے ترقی دینے کی کوشش کرتے تو آج پاکستان ریلوے ایشیا میں استحکام و ترقی کے لحاظ سے قائدانہ منصب پر فائزہوتا۔


یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی مسافروں کی اکثریت ریلوے کے ذریعے سفر کو ترجیح دیتی ہے۔ ان کی اس ترجیح کا بنیادی سبب یہ ہے کہ شہری ریل کے سفر کو محفوظ سفرجانتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ قیامِ پاکستان کے بعد محکمہ ریلوے نے عوامی ضروریات کو کبھی سنجیدگی سے پیش نظر رکھ کر کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی۔یہ امر موجب طمانیت ہے کہ موجودہ دور میں ریلوے نے بہتری اور بحالی کی جانب سبک رفتاری سے پیش رفت کی ہے۔اس کا جیتا جاگتا ثبوت گرین ٹرین کا منصوبہ ہے۔ اس ٹرین میں کھانے پینے کی مفت سہولتوں کے علاوہ وائی فائی اور انٹرنیٹ کی سہولتیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ گرین لائن ٹرین میں اسلام آباد سے کراچی تک کا سفر 23 گھنٹوں میں طے ہوتاہے۔ مزید یہ کہ گرین ٹرین سروس کے مسافروں کی10 لاکھ کی انشورنش بھی ہوتی ہے۔


فی الوقت گرین لائن ٹرین ایک تجرباتی منصوبہ ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ شہری ریلوے کی سفری سہولتوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ توقع رکھتے ہیں کہ حکومت ریلوے کے مزیدایسے مفید منصوبے بنا ئے گی جو ان کے لئے سفری سہولتوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے میں ممد اور معاون ثابت ہوں گے۔مارگلہ ریلوے سٹیشن اسلام آباد سے کراچی تک چلنے والی گرین لائن ٹرین کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہاکہ ’’ گرین لائن ٹرین کے افتتاح پر وہ ریلوے کارکنوں کو مبارکباد دیتے ہیں، جنہوں نے اپنا خون پسینہ اِس ادارے کو دیا ۔ریلوے سے ہیرا پھیری اور کرپشن ختم ہو گئی ہے۔جب سے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے وزارت کا حلف اٹھایا ہے۔ انہوں نے خفیہ ذرائع کے ذریعے پتہ لگایا کہ ریلوے کے اندر کتنی کالی بھیڑیں ہیں کہ جو بھیڑیے کا روپ دھار چکی ہیں۔ انہوں نے کرپشن مافیا کے خلاف اس قدر سخت ایکشن لیا کہ انہیں نوکریوں سے برطرف کیا۔ ان کالی بھیڑوں کے انخلا کے بعد ایماندار و دیانت دار افسروں اور اہلکاروں کو ذمہ داریوں کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت جلد اس کے ثمرات دکھائیں۔ اگر پاکستان میں احتساب کا صاف شفاف اور موثر نظام موجود ہوتا تو ریاست کے قومی ادارے کبھی دیوالیہ نہ ہوتے۔


خواجہ سعد رفیق کی اپنی کوششوں سے اب ریلوے کی یہ حالت ہے کہ اس میں سفر کریں تو گمان ہوتاہے کہ ہم پاکستان ریلوے کی بجائے برطانیہ، جرمنی کی ٹرین میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہرٹرین میں صاف ستھرے اور نئے نکور لوٹے، بیماروں اور مریضوں کے لئے کموڈ اور فلش سسٹم لیٹرین کہ کسی فائیو سٹار ہوٹل کے باتھ روم کا گمان ہوتاہے۔ مسافروں کے لئے تمام سہولتیں مثلاً موبائل فون چارجنگ، ڈائننگ ہال کہ جس میں اعلیٰ کوالٹی کا کھانا، مناسب نرخوں پر منرل واٹر سے لے کر تمام حلال مشروبات کے ریٹ انتہائی مناسب ہیں۔۔۔ٹکٹوں کی بلیک مارکیٹنگ کی بجائے بکنگ صرف شناختی کارڈ سے ہی ممکن ہے اور اگر خدانخواستہ ٹرین لیٹ ہے مگریہ تاخیر کبھی ایک گھنٹہ سے زائد نہیں ہوتی بکنگ کروانے والے مسافروں کو بذریعہ ایس ایم ایس اطلاع دی جائے گی کہ ٹرین تاخیر کا شکار ہے۔


پاکستان نے چین سے مزید ریلوے انجنوں کی خریداری روک دی، کیو نکہ موجودہ انجن معیار پر پورا نہیں اْترے ۔دو سالہ کارکردگی دیکھنے کے بعد مزید انجن منگوائے جا ئیں گے۔ چین سے لائے جانے والے انجنوں کا سافٹ وئیر خراب ہو جاتا ہے، جس کے باعث یہ انجن بند ہو جاتے ہیں۔وزیر ریلوے کا کہنا ہے کہ جرمنی ، امریکہ ، برطانیہ سے جہاں سے بھی سستے اور بہتر ٹیکنالوجی والے انجن ملیں گے،لے لئے جائیں گے۔ پچھلی حکومت میں مال برداری کے لئے صرف 8 انجن دستیاب تھے۔اس وقت 80 انجن مال برداری کا کام کررہے ہیں،لیکن ریلوئے کی بہتری میں ابھی گنجائش ہے۔ اس وقت کیماڑی سے لے کر زاہدان اور لنڈی کوتل تک ریلوے کی قیمتی کھربوں روپے کی اراضی پر قبضہ ہے۔ اگر اِسی زمین کو استعمال میں لایا جائے، تو ریلوے قرض لینے کے بجائے دینے والا ادارہ بن جائے۔ ریلوے کی فروخت کی گئی زمینوں کی تفصیلات سامنے لائی جائیں۔ لاہور میں 72 ارب روپے کی زمین صرف 24 ارب میں فروخت کر دی گئی، اور ادارے کو 54 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔


حکومتیں عرصے سے ریلوے کی نجکاری کے حوالے سے سوچتی آئی ہیں، مگرریلوے میں نجکاری کسی مسئلے کا حل نہیں، تاہم اگر محکمہ ریلوے بھی چلتا رہے اور کوئی نجی کمپنی اپنے انجن اور کوچز اسی ٹریک پر لائے اور ٹریک کو استعمال کرنے کا کرایہ ریلوے کو دیا جائے، تو ملازمین اس صورت میں نجکاری کی مخالفت نہیں کریں گے، بلکہ اس سے روز گار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے اورصحت مند مقابلے کی فضا بھی پیدا ہو گی۔ خواجہ سعد رفیق کی مثال سے ثابت ہوا کہ اگر وزیروں کو مکمل اختیارات دئیے جائیں اور ان کے کام میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے تو وہ حیرت انگیز کام بھی کرسکتے ہیں۔ اگر خواجہ سعد رفیق اسی جوش و جذبے کے ساتھ اپنے کام میں مگن رہے اور ان کی وزارت میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی گئی تو یقینی طور پر پاکستان ریلوے ایک بار پھر ایک کامیاب اور ماڈل ادارہ بن جائے گا۔

مزید :

کالم -