مہاجرین کو ایک ایسے ملک نے گلے لگانا شروع کردیا جس نے ماضی میں مسلمانوں کا جیناحرام کئے رکھا

مہاجرین کو ایک ایسے ملک نے گلے لگانا شروع کردیا جس نے ماضی میں مسلمانوں کا ...
مہاجرین کو ایک ایسے ملک نے گلے لگانا شروع کردیا جس نے ماضی میں مسلمانوں کا جیناحرام کئے رکھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میڈورڈ (ڈیلی پاکستان آن لائن)اٹلی کی طرف سے انکار کے بعد مہاجرین کی ایک کشتی بالآخر سپین کی ایک بندرگاہ پر لنگر انداز ہو گئی ہے۔ بحیرہ روم میں موجود یہ کشتی گزشتہ کئی دنوں سے کسی بندر گاہ پر لنگر اندز ہونے کی خاطر اجازت طلب تھی۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ہسپانوی غیر سرکاری ادارے ’پروایکٹیو اوپن آرمز‘ کی یہ کشتی خلیج جبرالٹر کے قریب واقع سان روخے کی بندر گاہ پر مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجکر بیس منٹ پر لنگرانداز ہوئی۔ اس کشتی میں سوار زیادہ تر مہاجرین کا تعلق دارفورسمیت سوڈان سے تھا۔
ان مہاجرین کو دو اگست کو بحیرہ روم سے ریسکیو کیا گیا تھا۔ امدادی کارکنوں کے مطابق یہ لوگ چھوٹی کشتیوں پر بے یارومددگار پچاس گھنٹے تک بحیرہ روم کی پانیوں میں موجود تھے، جب انہیں بچایا گیا تھا۔ اس دوران ان کے پاس پینے کا پانی بھی نہیں تھا۔
’پروایکٹیو اوپن آرمز‘ کے مطابق جب ان مہاجرین کو ریسیکیو کیا گیا تھا تو ان کے بدن ایندھن کے مکسچر اور سمندری پانی کی وجہ سے جل چکے تھے۔ اس گروپ میں 75 مرد جبکہ بارہ لڑکے شامل تھے۔ اس امدادی ادارے کے مطابق لیبیا سے یورپ روانہ ہونے سے قبل بھی ان میں سے متعدد افراد کو انسانوں کے سمگلروں نے مسلسل زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
حالیہ عرصے میں اٹلی کی حکومت نے مہاجرین کی آمد کے خلاف کریک ڈاون شروع کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے اب افریقہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سپین کی سرزمین پر پہنچیں۔
رواں برس اسی سمندری راستے سے سپین پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد تئیس ہزار سات سو ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے اعدادوشمار کے مطابق اس کوشش میں کم ازکم 307 افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
گزشتہ دو مہینوں کے دوران مہاجرین کی یہ تیسری کشتی ہے، جو سپین لنگر انداز ہوئی ہے۔ مالٹا اور اٹلی کی حکومتوں نے ان کشتیوں کو اپنی اپنی سمندری حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس وجہ سے سپین کی سوشلسٹ حکومت نے انہیں خوش آمدید کہا۔
میڈرڈ حکومت نے کہا ہے کہ جمعرات کے دن سپین پہنچنے والے مہاجرین کو ویسے ہی طبی مدد اور دیگر مراعات دی جائیں گی، جیسا کہ ملک میں پہنچنے والے دیگر تارکین وطن اور مہاجرین کو فراہم کی جاتی ہیں۔