پاکستانی زراعت کیلئے نیا خطرہ منڈلانے لگا ، زرعی ماہرین کو پیشگی منصوبہ بندی کی ضرورت

پاکستانی زراعت کیلئے نیا خطرہ منڈلانے لگا ، زرعی ماہرین کو پیشگی منصوبہ بندی ...
پاکستانی زراعت کیلئے نیا خطرہ منڈلانے لگا ، زرعی ماہرین کو پیشگی منصوبہ بندی کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد، نئی دہلی (ڈیلی پاکستان آن لائن)ویسے تو اس سنڈی کا تعلق امریکہ سے ہے لیکن یہ افریقہ بھر کی فصلوں کو تباہ کر چکی ہے۔ تازہ انکشافات کے مطابق یہ س±نڈی اب بھارت تک پہنچ گئی ہے اور اس کے بعد پاکستان کی فصلوں کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔
بھارت کی زرعی ریسرچ کونسل کے سائنسدانوں نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’فال آرمی وورم‘ نامی سنڈی ان کے ملک میں بھی حملہ آور ہو چکی ہے۔ زرعی تحقیق کے اس ادارے کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے علاقے چیکابالا پور میں مکئی کی ستر فیصد فصلوں میں یہ سنڈی دیکھی گئی ہے۔
یہ ایسا پہلا موقع ہے کہ ایشیا میں اس س±نڈی کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔ یہ سنڈی صرف مکئی ہی نہیں بلکہ 180 سے زائد اقسام کے پودوں کو شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سنڈی اور اس کے بعد اس سے بننے والے تتلی نما کیڑوں کو انتہائی خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔
غیر منافع بخش زراعت اور بائیو سائنس کے بین الاقوامی مرکز (سی اے بی آئی) کے مطابق یہ کیڑے چاول، کپاس اور گنے کی فصل کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔ ایسے خدشات بھی ہیں کہ بھارت کے بعد یہ خطرناک قسم کے کیڑے پاکستان تک پہنچتے ہوئے اس ملک کی فصلوں کو بھی متاثر کر دیں گے۔
بھارت میں ایگری کلچر سائنس یونیورسٹی کے سائنسدان اے ایس ویستراد کے مطابق زرد اور براو¿ن رنگ کے یہ کیڑے تیزی سے بھارت کی دیگر ریاستوں اور ہمسایہ ممالک تک پھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ”مادہ سنڈیاں بڑی تیزی سے انڈے دیتی ہیں۔ یہ کیڑے پہلے ہی بھارت کی دو مزید ریاستوں تامل ناڈو اور تلنگانہ میں داخل ہو چکے ہیں۔“
پہلی مرتبہ اتنی بڑی سطح پر یہ کیڑے سن دو ہزار سولہ میں افریقہ کی مکئی کی فصلوں میں ملے تھے۔ اس کے بعد سے یہ افریقہ کے چالیس سے زائد ممالک میں مکئی کی فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق زیادہ تر امکان یہی ہے کہ ’آرمی وورم‘ انسانی نقل و حرکت کے ذریعے ہی بھارت تک پہنچے ہیں اور بھارتی ریگولیٹری سسٹم اس حوالے سے اشیاءکی جانچ پڑتال کرنے میں ناکام رہا ہے۔
دوسری جانب یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کیڑے تیز ہواوں کے ہمراہ اس ملک تک پہنچے ہوں کیوں کہ یہ تتلی نما کیڑے سینکڑوں کلومیٹر تک پرواز کر سکتے ہیں۔
دریں اثناءسی اے بی آئی کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گہا ہے، ”فوری ایکشن کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ کیڑے ایشیا کے دیگر ممالک تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس خطے کے موسمی حالات بھی ان کی پرورش کے لیے انتہائی مناسب ہیں۔“
بھارتی کسان ان سنڈیوں کے خلاف عارضی طور پر مختلف کیڑے مار ادویات استعمال کر رہے ہیں لیکن ایسے خطرات ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادویات ان کے خلاف غیر موثر ہو جائیں گی۔
اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم کے مطابق انہوں نے عمومی بجٹ کے علاوہ نو ملین کی اضافی رقم فراہم کی ہے تاکہ ’آرمی وورم‘ کے انسداد کے پروگراموں میں پیش رفت کو ممکن بنایا جا سکے۔