کیا ماں کا ہر حکم مان لینا چاہئے ؟؟
ماں کا رتبہ بہت بلند ہے ،اسکی خدمت کا اجر بے شمار ہے ۔لیکن بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا ماں کا ہرحکم مان لینا چاہئے ،اسلام کی تلقین ہے کہ ماں کے سامنے اُف تک نہ کہو۔سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ ماں کے بعض حکم نہ بھی مانے جائیں تو گناہ نہیں ہوتا ۔ماں کی ہر وہ بات ماننے سے انکار کیا جاسکتا ہے جس کو رد کرنے کا حق آپ کواللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے دیا ہے ۔
ماں بلاشبہ بہت بڑی ہستی ہے ۔اسکی خدمت میں اولاد کا دل کشادہ ہونا چاہئے ۔ آپ کوئی بھی امام لے لیں، ان تمام لوگوں کی زندگیوں میں ان کی ماؤں کا ایک بڑا کردار رہا ہے۔ مثال کے طور پر امام ابن سیرینؒ کی مثال لے لیں۔ امام ابن سیرینؒ خوابوں کی تعبیر بتایا کرتے تھے ۔آج بھی انکے علم تعبیر کو مانا جاتا ہے ۔ وہ اپنی ماں کے لیے کھانا پکایا کرتے تھے اور کبھی ان کے ساتھ بیٹھ کر کھایا نہیں کرتے تھے۔ ان کے طالب علموں نے پوچھا کہ امام آپ کھانا پکاتے ہیں133 ان کے ساتھ کھاتے کیوں نہیں ؟ کہا مجھے ہمیشہ یہ دھچکا رہتا ہے کہ شاید یہ لقمہ میری ماں نے کھانا ہو اور وہ لقمہ میں لے لوں133 تو میں پکاتا تو ضرور ہوں لیکن پکا کر اس کے سامنے رکھ کرکھڑا رہتا ہوں۔
اب یہاں سے ہراس ادارے کے مانندجس کا ہم نے الحمدللہ اب غلط استعمال کیا ہے، عین اسی طرح ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں تمام لوگ اس ادارے کاغلط استعمال کرنے کا پورا پورا حق سمجھتے ہیں کیونکہ اللہ نے عورت کو ماں بنادیاہے،ماں اب یہ حق جتائے کہ اب اولاد کا فرض ہے کہ وہ اسکے آگے اْف نہ کرے۔ماں نے کہاہے کہ تو زرینہ سے شادی کر لے ،چاہے مطلقہ زرینہ دس بچوں کی ماں ہو،بدزبان ہو۔۔۔ ماں کے حکم اور خدمت کو علم کی بنیاد پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یہاں اْف کے بعد یہ بھی سوچنا ہے کہ جو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺنے آ پ کو گنجائشیں دی ہیں آپ وہ دے سکتے ہیں۔ ہماری ماں اللہ کے رسولﷺ سے بڑی تو نہیں ہوسکتی ۔ آپ کو چونکہ علم نہیں ہوتا کہ کیا کیا چیزیں مجھے میرے اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے دی ہیں، ہم ایسے لوگوں سے مشورے لینے میں لگ جاتے ہیں کہ کہیں گناہ تو نہیں کررہے ؟جیسا کہ شادی کا حق ہے۔سن لیجئے ۔
ایک خاتون بازار میں رسول پاک ﷺ کے ایک صحابیؓ کے ساتھ جارہی تھی۔ اس نے رسول ﷺ کو دیکھا ،یقیناً میرے رسولﷺ بڑے وجیہہ۔ میرے رسولﷺ کو دیکھ کے کہتی ہیں’’ یارسول اللہ! مجھے اپنے تئیں لے لیں‘‘ اللہ کے رسولﷺ نے اسے دیکھا اور ساتھ والے صحابیؓ سے فرماتے ہیں ’’تو لے لے133‘‘ میرے رسولﷺ کی مرضی تھی۔ ہمیں پتا ہے کہ وہ اس بات کو کیوں نہیں کہیں گے133 کہ یہ کیاناجائز بات ہوگئی !133 ہمارے قد اور ہماری ذہانت اورعقل رسولﷺ سے بڑی (معاذ اللہ) ہوگئی کیا؟ پھریہ رواج بن گیاکہ شادی میری مرضی ہے۔آپ نے لوگوں کویہ رواج دے دیا۔ انہوں نے کہا، ہاں مرضی آپ کی ہے لیکن ولی ہوگا۔ اب یہ جو اندازفکرہیں (میں نہیں کہہ رہا کہ ولی ہوگا یا نہیں) میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے آپ کو صلاحیت بھی دی ہے اوراختیاربھی دیا ہے۔ یہ ایک جبلی رویہ ہے،یہ روحانی رویہ نہیں۔ آپ کہیں گے کہ یہ روحانیت کی محبت ہے۔ اس لیے شادی کرنا چاہتا ہوں133 ارے نہیں بابا! ایسا نہیں ہوسکتا۔
اس لیے اگر آپ کے پاس اپنا علم ہے، پھر آپ فوراً علم کے زور پرحوالہ دیں گے اور دیکھیں گے کہ یہ احکامات ٹھیک نہیں ہیں۔ اس کے بعد یہ بات آئے گی ’’اْف‘‘ والی۔ اس سے پہلے نہیں آسکتی۔ ماں کہہ دے نماز نہ پڑھاکر133 تو کیا نماز چھوڑ دیں گے ؟ اب خود سوچئے ،ماں جب شرعی حقوق کے برعکس چلے یا چلانے کی کوشش کرے تو آپ کو سوچ سمجھ کر کہ دین کیا کہتا ہے،اس حق کو استعمال کرنا چاہئے ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔