بھارت کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا مشورہ
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتوینو گوتریس نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے ممکن ہے، بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے گریز کرے اور ایسے کسی بھی اقدام سے پرہیز کرے جس سے جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت متاثر ہوتی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت شملہ سمجھوتے میں مسئلے کا یو این چارٹر کے مطابق حتمی حل نکالنے پر اتفاق کر چکے ہیں۔ سیکرٹری جنرل نے فریقین کو تحمل کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ حالات پر ان کی نظر ہے، کشمیر میں بھارتی پابندیاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے، امریکہ نے بھی اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ بھارتی فیصلے سے خطے میں عدم استحکام بڑھے گا، اور وسیع مضمرات ہوں گے۔ ملائشیا کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد ضروری ہے، سعودی عرب کا کہنا ہے کہ صورت حال تشویشناک ہے جس کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے تو بھارت کو خبردار کر دیا ہے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کی کوئی کوشش نہ کرے اور کشمیر میں پابندیوں کا خاتمہ کرے، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث بن سکتی ہیں، لیکن بھارت نے جس طرح کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور بھارتی لوک سبھا میں بی جے پی کے رہنما جو اشتعال انگیز خطاب کر رہے ہیں اس کا شدید ردعمل ہوگا۔ فی الحال تو پابندیاں لگا کر ہر قسم کی اطلاعات کی گردش روک دی گئی ہے، لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکتا اور احتجاج کا آتش فشاں جس انداز میں پھٹے گا اس کا شاید بھارتی حکومت کو ابھی اندازہ نہیں ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھارت کو جو صائب مشورہ دیا ہے اس پر عملدرآمد ہی میں بہتری پویشیدہ ہے۔
بھارت ہمیشہ اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت دونوں ملک اپنے تنازعات باہمی طور پر حل کرنے کے پابند ہیں۔ سیکرٹری جنرل انتوینو نے بھی بھارت کو شملہ معاہدہ یاد کرایا ہے اور کہا ہے ”یو این چارٹر“ کے مطابق حل نکالا جاسکتا ہے، لیکن بھارت نے یکطرفہ فیصلے سے پہلے ہی ریاست میں سیکیورٹی فورسز میں جو اضافہ کردیا تھا اور فون اور انٹرنیٹ سروس بند کرکے خوف و دہشت کی جو فضا پیدا کردی تھی اب کشمیر کے بارے میں فیصلہ منظر عام پر آنے کے بعد اس کا وسیع ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے، لیکن مواصلات کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے خبریں باہر نہیں آرہیں۔ تاہم عالمی ادارے سمیت دنیا بھر کے ملکوں کو اس پر تشویش ہے، امکان تو یہی ہے کہ جونہی کرفیو ختم ہوگا حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے اور کشمیر کی آزادی کی تحریک پہلے سے بھی زیادہ شدومد سے آگے بڑھے گی، جو کشمیری گزشتہ 30سال سے مسلسل آزادی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے تھے اور ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر رہے تھے۔ ان کے لئے تو یہ کاغذی ترمیم بے معنی ہے۔ انہوں نے کبھی ان دو ڈھائی فیصد لوگوں کی باتوں پر کان نہیں دھرے، جو ریاستی انتخاب میں حصہ لیتے تھے اور اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے تھے کہ بھارتی سسٹم کے اندر رہ کر ان کے مسائل کا حل تلاش کر لیا جائے گا، لیکن اب غیر ریاستی عناصر کو ریاست میں جائیداد خریدنے کے جس راستے پر ڈالا گیا ہے، مودی کے خیال میں اس طرح وہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم ہو جائے گا اور ہندوؤں کی آبادی بڑھ جائے گی۔
اسرائیل فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں بسا کر ایسا ہی غیر قانونی اقدام کر چکا ہے، لیکن اس طرح کیا فلسطین کا مسئلہ حل ہوگیا اور دنیا نے اسرائیل کی اس جارحیت کو جائز قرار دے دیا؟ اس طرح بھارتی حکمرانوں کی اس حرکت کو بھی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی نہیں مانا اور انہیں بروقت تحمل کا مشورہ دیا ہے۔ بھارت کو چاہئے کہ خطے میں کشیدگی کم کرے، لیکن اس نے جارحیت کا جو راستہ اپنایا ہے اس سے بعید نہیں کہ سرحدی کشیدگی جنگ میں بدل جائے۔ تاہم اگر بھارت نے ایسی حرکت کی تو پورا خطہ شعلوں کی لپیٹ میں آجائے گا۔ بھارت نے ایک ایسی ہی حرکت 27فروری کو کی تھی جس کا دندان شکن جواب ملا تو بھارتی پائلٹ کی گرفتاری اور اس کے مشن کے بارے میں ایسے ایسے افسانے تراشے گئے جن کی بعد میں تردید کرنا پڑی اور جنہیں بھارتی عوام نے بھی نہیں مانا۔ بالآخر آنجہانی سشماسوراج نے بھی جو اس وقت وزیر خارجہ تھیں یہ مان لیا کہ ”350دہشت گردوں“ کے کیمپ پر حملہ کرنے کی بات درست نہیں تھی۔ اب بھی کشیدگی میں اضافہ خطے کے مفاد میں نہیں ہوگا، بہتر یہی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے، جس کا مشورہ سیکرٹری جنرل نے بھارت کو دیا ہے۔
جو کشمیری اپنی آزادی کے لئے سنگینوں، بندوقوں اور پیلٹ گنوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے لئے یہ بات پرکاہ کے مساوی حیثیت نہیں رکھتی کہ بھارتی حکمران اپنی تسلی کے لئے آئین میں کون سی دفعات شامل کرتے اور کون سی نکالتے ہیں، وہ تو کشمیر کا فیصلہ بزور شمشیر کرنے کے لئے میدان میں نکلے ہوئے ہیں اور وہیں فیصلہ ہوگا۔ بیلٹ پیپر سے فیصلے کا راستے تو خود بھارت نے بند کردیا اور ستر برسوں میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دیا۔ اس میں بھی یہ خوف پوشیدہ ہے کہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ پاکستان سے وابستہ کر دیں گے، ورنہ اگر نہرو کے وعدے کے مطابق کشمیریوں کو یہ حق دے دیا گیا ہوتا تو کشمیر ربع صدی سے لہولہان نہ ہوتا اور نہ موجودہ حکمرانوں کو کسی نئی عیاری کی ضرورت پیش آتی، بھارت کے نئے اقدام سے تو الحاق کی وہ بنیاد ہی ڈھے گئی ہے جس پر بھارت کا سارا مقدمہ کھڑا تھا۔